مقالہ نگار ۔۔محمد اشتیاق بن شمس الحق
موصوف نے ہفتہ واری انجمن میں پہلی پوزیشن حاصل کی
موضوع مقالہ ۔۔۔ انکار حدیث حق یا باطل
حرف آغاز ۔
یہ مقالہ مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کی کتاب انکار حدیث حق یا باطل سے ماخوذ ہے اس کتاب میں مدھو پوری محقق صاحب کی زبان چند اصولی دلیلوں کو ذکر کر کے مولانا صفی الرحمن مبارک پوری نے ان کی تردید میں اس کا جواب دیا ہے ۔منکرین حدیث میں انکار حدیث کے لیے سب سے اہم اور بنیادی نقطہ یہ تلاش کیا ہے کہ قران مجید میں ہر مسئلے کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے لہذا حدیث کی ضرورت نہیں ہے قرآن میں کچھ آیتیں ہیں جس کے مطلب کو توڑ مروڑ کر یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ قران میں ہر مسئلے کی تفصیل موجود ہے مولانا نے اپنی کتاب میں منکرین حدیث سے چند سوالات کیے ہیں جو درزیل ہیں۔
۱ ۔۔قران میں مردہ ،خون، سور ،کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بہیمت الانعام حلال کیا گیا ہے بہیمۃ الانعام کی تفسیر قران میں اٹھ جانوروں سے کی گئی ہے اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا ،بھیڑ اور مینڈھا لغت میں بھی بہیمت الانعام کی فہرست میں یہی جانور بتائے گئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام ؟؟ مثلا کتا بلی گیدڑ بھیڑیا چیتا شیر تندوا بندر بھینسا خرگوش کوا چین باز کبوتر وغیرہ وغیرہ ۔۔۔یہ سارے جانور حلال ہیں یا حرام یا ان میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام؟؟؟
اپ کچھ بھی جواب دیں اس کا ثبوت قران ہی سے پیش کریں کیونکہ اپ دعوی دار ہیں کہ قران میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے حدیث کی ضرورت نہیں ۔اور اگر اپ قران سے دلیل نہ دے پائے اور یقینا نہیں دے سکیں گے تو اپ کا قران سے دلیل نہ دے پانا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قران میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے لہذا حدیث کی ضرورت ہے کیونکہ ان جانوروں کے حلال اور حرام ہونے کا قاعدہ صرف حدیث میں ہی بیان کیا گیا ہے۔
۲.. دوسرا سوال : یہ ہے کہ قران میں صلا ۃ قائم کرنے کا رکوع سجود کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن صلوۃ قائم کرنے کی کیفیت کا بیان قران میں نہیں ہے اب سوال یہ ہے کہ صلاۃ قائم کرنے کی تفصیل قران میں نہیں ہے تو کس کتاب میں ہے ؟کیا لغت میں ہے؟ لغت میں صلاۃ کے معنی دعا کے ہیں لہذا صلا ۃ قائم کرنے کی تفصیل اور کیفیت معلوم کرنے کے لیے اپ کو احادیث رسول کی طرف رجوع کرنا ہی پڑے گا لہذا انکار حدیث باطل ہے اور منکرین حدیث کا دعوی بھی باطل ہے۔
۳.. تیسرا سوال: یہ ہے کہ قران میں زکوۃ دینے کا حکم تو دیا گیا ہے اور زکوۃ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے لیکن کیفیت زکوۃ , و مستحقین زکوۃ, اور مقدار زکوۃ, کی تفاصیل بیان نہیں کی گئی ہے اب سوال یہ ہے کہ زکوۃ کے سارے مسائل قران سے ثابت کیجئے اگر اپ قران سے یہ مسائل ثابت نہ کر سکیں ( اور ہرگز نہیں ثابت کر سکیں گے) تو ثابت ہوگا کہ حدیث کو مانے بغیر قران کے حکم پر بھی عمل ممکن نہیں ہے کیونکہ ان سارے مسائل کا بیان حدیث میں ہی ایا ہے۔
۴۔۔چوتھا سوال: یہ ہے کہ قران میں حکم ہے کی جنگ میں حاصل کردہ مال غنیمت کے پانچ حصے کر کے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسول کے نام پر الگ نکال دیا جائے۔اب سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کا کیا کیے جائیں ؟؟ اگر مجاہدین کو برابر دیں تو کیوں دے؟ اس کا ثبوت قران میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں اگر کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں تب بھی قران سے اس کا ثبوت دیجئے؟ اگر قران میں ان مسئلوں کا بیان نہیں ہے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ قران میں سارے مسئلے بیان کر دیے گئے ہیں لہذا یہ بات ثابت ہوئی کہ منکرین حدیث کا دعوی فاسد ہے۔
۵.. پانچواں سوال: یہ ہے کہ قران میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو اب سوال یہ ہے کہ قطع ید کی مقدار کیا ہوگی ؟ اس کے حدود و کیفیت کیا ہے؟ اور قطع ید کا حکم کس وقت ہے اور کتنے مقدار میں چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنا واجب ہے ؟ اور کس کو حد کی تنفیذ کا حکم دیا گیا ہے ؟ اور ہاتھ کاٹنے کے شرائط و ممانع کیا ہیں؟ اپ جو بھی جواب دیں اس کا ثبوت قران سے دیں اور اگر اپ جواب نہ دیں سکیں تو کیسے یہ دعوی کرتے ہیں کہ قران میں ہر مسئلے بیان کر دیے گئے ہیں۔
۶.. چٹھا سوال یہ ہے کہ قران میں ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی صلا ۃ کے لیے جمعہ کے دن پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو اب سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب کس صلاۃ کے لیے اور کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے ان ساری باتوں کا ثبوت قران سے دیجیے ورنہ تسلیم کیجئے کوئی قران میں ہر مسئلے کی تفاصیل بیان نہیں کی گئی ہے۔
اس طرح جناب مدھوپوری صاحب لکھتے ہیں کہ دین عملا محمد رسول اللہ والذین معہ کے ذریعے مکمل ہو چکا ہے اور قولا لوح محفوظ میں محفوظ ہو گیا ہے تو مولانا صفی الرحمن مبارک پوری نے جواب دیا ہے کہ محمد رسول اللہ کے ذریعہ جو دین مکمل ہو چکا ہے اس کی تفصیلات کہاں دستیاب ہوگی اپ قران سے اس چیز کو ثابت کیجئے اور یقینا اس کی تفسیر قران میں نہیں ہے لہذا ان کی تفصیلات حدیث میں ہی ملیں گی اور اپ کا یہ دعوی باطل ثابت ہوگا۔
اسی طرح مدھو پوری صاحب لکھتے ہیں کہ احادیث روایت بالمعنی ہیں یعنی احادیث میں رسول اللہ کے الفاظ موجود نہیں ہیں تو مولانا نے جواب دیا ہے کہ روایت بالمعنی اگر کوئی جرم ہے تو اس جرم کا سب سے بڑا مجرم نعوذ باللہ خود قران ہوگا۔کیونکہ قران میں مذکور سارے انبیاء کرام کے اپنی اپنی قوموں سے جو مکالمے ہیں کیا وہ سب مکالمے انہی الفاظ اور انہی عبارتوں میں تھے۔جن الفاظ اور عبارتوں کے ساتھ قران میں درج ہیں؟ کیا اپ اس تاریخی حقیقت کا بھی انکار کریں گے کہ ان پیغمبروں اور ان کی قوموں کی زبان عربی نہیں تھی؟
۔لہذا : ان ساری باتوں سے معلوم ہوا کہ حدیث کا انکار باطل ہے اور منکرین حدیث کے دعوے باطل ہیں ۔۔
اگر زیر نظر مقالہ میں کوئی کمی یازیادتی ہے تو اہل علم رہنمائی کریں
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.