تصوف کیا ہے؟

دین اسلام ایک خالص دین ہے اس دین میں کسی طرح کی کوئی ملاوٹ و سجاوٹ نہیں ہے یہ دین خرافات و بدعات سے محفوظ ہے باطل عقائد و نظریات کے حاملین نے ہر دور میں اس دین اسلام کے سینے کو زہر افسانی کے ذریعے چھلنی کرنے کی ناروا کوشش کی اللہ تعالی نے اس دین کی حفاظت کے لیے ہر دور میں ایسے ایسے محدث، فقیہ و مجدد بھیجا کی باطل پیٹھ پھیر لیٔے۔ انھیں باطل عقائد و افکار میں سے ایک صوفیت ہے زیر نظر مقالہ میں صوفیت کے متعلق مختصر معلومات جاننے کی کوشش کرتے ہیں

تصوف کی لگی و اصطلاحی تعریف

تصوف، صوف سے مشتق ہے جس کا معنی اون ہوتا ہے کہا جاتا ہے تصوف (فلاں آدمی نے اون کے بنے ہوئے کپڑے پہنا ) صوفیت و تصوف بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سو وفا سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک یہ ایسا کلمہ ہے جس کو گواہی قیاس نہیں دے سکتا اور عربی زبان میں کوئی حق نہیں ہے ۔

اصطلاحی تعریف: سمنو ن مشہور صوفی سے کسی نے تصرف کی تعریف پو چھی تو انہوں نے کہا تصوف یہ ہے کہ تم کسی چیز کے مالک نہ ہو اور نہ ہی کوئی چیز تمہاری مالک ہو

سراج طوسی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ جنید بغدادی سے تصوف کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ تصوف کیا چیز ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اللہ کے ساتھ بغیر کسی واسطے کے تعلق قائم ہونا

 

شبلی سے تصوف کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا تصوف بجلی کی ایک قوم ہے جو لمحے میں ہی سب کچھ جلا ڈالتی ہے

 

صوفی نسبت کی وجہ تسمیہ

جو شخص تصوف اختیار کرتا ہے اسے صوفی کہا جاتا ہے

یہ صوفی اونی لباس کی طرف منسوب ہوں صحیح بھی یہی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لفظ “صوفیہ القفاء”گدی کے بال کی طرف منسوب ہے یہ قول بھی ہے کہ یہ صوفۃ بن مر بن اد بن طابخۃ کی طرف منسوب ہے جو زید ب عنایت میں مشہور عرب کا ایک قبیلہ تھا علاوہ ازیں اہل صفہ اہل صفا صفوہ یا اللہ کے روبرو کھڑی ہونے والی پہلی صف کی جانب بھی اس کی نسبت کی گئی ہے یہ سب اتوال ضعیف ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو صفی یا صفائی یا صفوی وغیرہ کہا جاتا ہے صوفی نہ کہا جاتا فقراء کا اطلاق اہل سلوک پر ہونے لگا یہ جدید اصطلاح ہے

تصوف کیا ہے

تصوف ایک انتہائی رضوی شیطانی چال ہیں شیطان نے اللہ کے بندوں کے کو شکار کرنے کے لیے بڑی چابکدستی سے تیار کیا ہے یہ صوفیا بظاہر ابانی نظر اتے ہیں مگر درحقیقت اپنے دامن میں مجوسیت سموئے ہوئے ہیں ان میں برہمنیت یہودیت کا بھی عکس دکھائی دیتا ہے اور بدھ مت و ہندو و عزم کی تمام تر الائشیں اشکار نظر اتی ہیں

تصوف کی حقیقت

تصوف ایک قدیم فلسفیان فکر ہے جس کو ان سے اسلامی لبادہ اوڑھنی کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے ابتدائی ایام میں اسے روا روافض نے بڑی گرم جوسی سے فروغ دیا اسی لیے اولی صوفیہ میں سے اکثر رافضی نظر اتے ہیں جو باطنیہ کے کفریہ عقائد کے حامل تھے مگر بعد میں علم سے ادھور اہل سنت بھی اس کی خوشی اس رنگی کا شکار ہو گئے اس کے دام فریب میں پھنس کر الہاد اور زندہ کو گلے لگایا اور اصل دین کو ترک کر کے باطل عقائد دعا ان کا افکار کے شکار ہو گئے

تصوف کا ظہور

صوفیت کے ابتدا دوسری صدی ہجری کے وسط میں ہوئی اور صرف ڈھیڑھ سو سال کے عرصے قلیل میں یہ تحریک اخری سرحدوں تک جا پہنچی گویا تیسری صدی ہجری کے اواخر میں اسے کمال حاصل ہوا یہاں تک کہ نویں دسویں اور گیارہویں صدی ہجری میں عالم اسلام میں تصوفانہ افکار عروج و ارتقا کے منازل طے کرتے ہوئے عقائد انسانی کو کھوکھلا کرنے میں کمر بستہ تھے

بھائی سب سے پہلا شخص جس نے صوفی کا الفاظ استعمال کیا وہ ابو الحاسم محمد احمد الکوفی (م١٥٠ھ) تھا اس سے قبل یہ الفاظ کبھی استعمال نہیں ہوا

اہل تصوف کے قائد

اللہ کے بارے میں عقیدہ: اللہ کے بارے میں تصوف کے مختلف عقیدے ہیں ایک عقیدہ بلول کا ہے یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اتر اتا ہے نعوذ باللہ ایک عقیدہ وحدت الوجود کا ہے یعنی خالق المخلوق جدا نہیں یہ عقیدت تیسری صدی ہجری سے لے کر موجود زمانہ تک رہا ہے اور اخر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہو گیا اسی عقیدے کی چوٹی کے حضرات میں ابن عربی، ابن سبعین، تلمسانی، عبدالکریم ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عقیدہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف عقیدے ہیں بعض کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مرتبہ و مقام کو نہیں پہنچ سکے تھے اور اپ اہل تصوف کے علوم سے ناواقف تھے

ایک عقیدہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات کا ابا اور اپ کی وہ اللہ ہیں جو عرش پر مستوی ہیں اور اسمان و زمین اور عرش و کرسی اور ساری کائنات اپ کے نور سے پیدا کی گئی ہے

حولیہ کے بارے میں عقیدہ: ان کے بابت بھی مختلف عقیدے ہیں بعض صوفیا ولی کو نبی سے افضل کہتے ہیں اور عام صوفیا ولی کو تمام صفات میں اللہ تعالی کے برابر مانتے ہیں چنانچہ ان کے خیال میں ولی ہی پیدا کرتا ہے روزی دیتا ہے زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے کہ کائنات میں تصرف کرتا ہے صوفیا کے نزدیک ولایت بٹوارے بھی ہیں چنانچہ ایک غوث ہوتا ہے جو کائنات کی ہر چیز پر حکم چلاتا ہے چار کتب ہوتے ہیں جو غوث کے حکم کے مطابق کائنات کے چاروں کونے میں ہوتے ہیں سات دال ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک غوث کے حسب حکم سات براعظموں میں سے ایک براعظم پر حکومت کرتا ہے وغیرہ مختصر یہ اولیاء کی دنیا مکمل خرافات کی دنیا ہے یہ طبعی طور پر اسلامی ولایت کے خلاف ہے

جنت کے بارے میں عقیدہ: تمام صوفیا کا عقیدہ ہے کہ جنت کو طلب کرنا بہت بڑا نقص اور عیب ہے ولی کے لیے جائز نہیں کہ وہ جنت کے لیے کوشاں ہو اور اسے طلب کر رہے ہیں جو جنت طلب کرتا ہے گناہ کس ہے ان کے یہاں طلب اور رغبت صرف اسی کی ہے کہ وہ اللہ میں فنا ہو جائیں غیب سے واقف ہو جائیں اور کائنات میں تصرف کریں یہی صوفیوں کے خیالی جنت ہے

جہنم کے بارے میں عقیدہ: ان کا عقیدہ ہے کہ اس سے بھاگنا صوفی کامل کے شایان شان نہیں کیونکہ اس سے وار نازادوں کی نہیں غلاموں کی طبیعت ہے اور بعض صوفیوں نے غرور و فخر میں ا کر یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر وہ جہنم پر تھوک دے تو جہنم بجائے گی

ابلیس کے بارے میں عقیدہ: عام صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ کامل ترین بندہ تھا اور توحید میں ساری مخلوق سے افضل تھا کیونکہ اس نے ان کے بقول اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کیا اس لیے اللہ نے اس کے سارے گناہ بخش دیے اور جنت میں داخل کر دیا

فرعون کے بارے میں عقیدہ: اسی طرح فرعون بھی ان کے نزدیک افضل ترین موحد تھا کیونکہ اس نے حقیقت کو پہچان لیا تھا

اسلام میں تصوف کے درمیان بنیادی فرق

اسلام عقائد ک اور صرف نبیوں اور پیغمبروں کی وحی میں محصور قرار دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے ہمارے پاس صرف کتاب و سنت ہے اس کے برخلاف دینی تصوع میں عقائد کا ماتھا وہ خیالی وہی ہے جو اولیاء کے پاس اتی ہے یا وہ مزعومہ کشف ہے جو انہیں حاصل ہوتا ہے

اسی طرح اہل اسلام کے نزدیک شرعی احکام کے ماخذ کتاب و سنت اور اجماع و قیاس ہیں لیکن صوفیوں کی شریعت خوابوں خضر اور مردوں اور پیغمبروں وغیرہ پر قائم ہے یہ سارے لوگ ہی شارع ہیں

اسلام ایسا دین ہے جس کے عقائد متعین ہیں عبادات و احکام متعین ہیں لیکن صوفیوں کے نزدیک تصوف ایسا دین ہے جس میں نہ عقائد نہ شرائع اور نہ احکام کی تعین ہے

تصوف کے فرقے

تصوف کے بہت سارے فرقے ہیں اور ہر فرقے کے بانی و موسس ہے جن کی طرف نسبت کی جاتی ہے تصوف کے درج ذیل ہیں

١۔قادریہ: اس کی نسبت عبدالقادر جیلانی کی طرف کی جاتی ہے

٢۔رافیہ: اس کی نسبت احمد بن حسین رافعی کی طرف کی جاتی ہے

شاذلیہ: اس کی نسبت ابو الحسین بن علی بن عبداللہ بن عبدالجبار الشاذلی کی طرف کی جاتی ہے

احمدیہ: اس کی نسبت احمد البدوی کی طرف کی جاتی ہے

نقشبندیہ: اس کی بنیاد بہاؤدین محمد بن التجاری نہیں رکھی

بریلویہ: یہ احمد رضا خاں بریلوی کی طرف منسوب ہے

تصوف اہل سنت والجماعت کی نظر میں

تصوف اپنے اغاز و انجام دونوں اعتبار سے اہل سنت والجماعت کی نظر میں غیر اسلامی ہے جسے پر دین اسلام کا حسین غلاف ڈال کر عوام کو گمراہ کیا گیا ہے تصوف کے عقائد و اس کے ماخذ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کے خلاف ایک منصوبہ بند سازش ہے چنانچہ امام صافعی فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے دن کی ابتدا میں تصرف اختیار کیا تو ظہر کا وقت داخل ہونے تک وہ احمق بن چکا ہوگا اور امام تک الدین سب کی فرماتے ہیں کہ مت اخرین صوفیا کا طبقہ ابن عربی وغیرہ یہ بلا اتفاق گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگ ہیں

خلاصئہ کلام

یہ ہے کہ تصوف صوفیت ایک بہت ہی خطرناک راستہ ہے جو جہنم کی طرف لے جانے والا ہے اس کے عقائد بصریت سے ہر انسان کو بچنے کی ضرورت ہے اور تالبا وہ عوام کو خصوصی طور پر بچنے کی ضرورت ہے جو صوفیوں کی کتابیں اور ان کے اشعار سماج میں پائے جاتے ہیں چاہے وہ اردو اشعار ہوں یا عربی ہم طلبہ اسے صحیح اشعار سمجھ کر انجمن و جلسوں میں پڑھنے لگتے ہیں اس لیے ہر طالب کیے کوشش ہونی چاہیے کہ کوئی بھی کتاب پڑھنے سے پہلے اپنے بڑوں اسازہ وغیرہ سے رہنمائی ضرور حاصل کریں اللہ تعالی ہم سب کو سلف صالحین کے طریقے پر گامزن رکھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا راستہ ہے

 

برادرس کا فتنہ

مراجع ومصادر کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں 7800335681

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Spread the love

Leave a Reply