داڑھی کلچر یا دین؟

مقالہ نگار اخلاق احمد متعلم جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی

تمہید

یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ دور حاضر کے مسلمان خیرالقرون سے تقریبا ساڑھے 14 صدیاں دور جس کی بدولت گزشتہ ادوار کے بالمقابل فتنوں کا انبساط و انتشار زیادہ ہے موجودہ زمانے میں کئی ایسے افراد موجود ہیں جن کے کلام میں انتہائی درجہ کا ادب جھلکتا ہے جس کی بدولت وہ کئی مسلمانوں کو اپنی جانب راغب بھی کر لیتے ہیں البتہ ان کی باتیں ادب سے جیتنی قریب ہوتی ہیں اتنی ہی دین سے دور۔میں سے ایک جاوید احمد غامدی بھی ہیں

پیش کردہ مقالہ موصوف کہ ایک باطل دعوے کے جواب کی کوششیں اس دعوے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ موصوف نے تقریبا ایک گھنٹے کے بیان میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ داڑھی کا دین سے کوئی ربط نہیں بلکہ یہ صرف عربوں کا کلچر تھا اس مقالے میں انشاءاللہ اس دعوے کی حقیقت بیان کی جائے گی

داڑھی اور قران

اس بیان میں جب غامدی صاحب سے سوال ہوا کہ کیا داڑھی فرض ہے تو انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر داڑھی رکھنا فرض ہوتا تو اللہ نے قران کریم میں اسے ذکر کیا ہوتا جبکہ قران میں اس کا کہیں بھی تذکرہ نہیں

موصوف کی اس بات پر اگر کوئی دین کا ادنی طالب بھی غور کرے تو اس قول کی ذلالت کا اندازہ لگا سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ قران نے ہر شے کو تفصیلا ذکر کرنے کے بجائے

(وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنهم فانتهوا) و (وأطيعوا الله وأطيعوا الرسول)

ان کا سوال کا پڑھتا تھا فرما کر احادیث نظریہ پر عمل کرنے کا حکم دے دیا گویا اس ماہیے سے وہ تمام احکام جن میں احادیث نبویہ منفرد ہیں قران میں ذکر ہو گئے

اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ قرآن میں مذکور نہیں تو بھی یہ کہنا سراسر غلط ہوگا کہ قرآن میں ذکر نہ ہونے سے وہ حکم دین نہیں رہے گا بلکہ یہ تو احادیث نبویہ کا انکار ہے نیز یہ کہ اس قاعدہ کو تسلیم کرنا بہتیرے احکام کو اسلام سے خارج کر دے گا مثلا مسواک کا استحباب سوگ منانے کا وجود صدقۃ الفطر کا وجود بائیں ہاتھ سے کھانے کی حرمت پنجوں سے پکڑ کر کھانے والے اور نوکیلے دانتوں والے درندگی تحریم وغیرہ

حدیث کی شرعی حیثیت

نہیں نہیں موصوف میں اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ جو چیز قران کے بیان کر دی وہ دین ہے اور وہ باتیں جن کی نسبت ابا نے نبی 3 صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی وہ صرف روایت ہیں جن کی بنیاد پر دین کے احکام وضع نہیں کیے جا سکتے موصوف سے اس بات کی تردید قران کریم کی یہ دو ایتیں کرتی ہیں

“وما ينطق عن الهوى ” “ان هو الا وحى يوحى “

اس کے خلاف ایک اور دلیل مسلم میں موجود ہے کہ قبلہ کی تبدیلی کے وقت صرف ایک شخص کی گواہی پر تمام مصلیان نے صلاۃ کے دوران ہی اپنا رخ شام سے کعبہ کی طرف کر لیا

یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ جب صحابہ کسی امر کی نسبت اللہ تعالی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کریں تو ان کی تعداد خواہ دو سے کم ہی کیوں نہ ہو منسوب کردہ قول یا فعل یا تقریر دین کی حیثیت رکھے گی کیونکہ اس واقعے میں صرف ایک شخص نے تحویل قبلہ کی گواہی دی تھی اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا تھا لیکن وہ گواہی دین کا حصہ قرار پائی۔اس کے علاوہ بھی علماء کرام نے انکار حدیث پر کئی حجتیں قائم کی ہیں جن کا ذکر تطویل کلام کا باعث ہوگا

داڑھی اور مذہب اربعہ

 

موصوف نے اپنے اس بیان میں یہ بھی دعوی کیا کہ مذہب اربعہ نے داڑھی کٹانے کو مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے موصوف کا یہ دعوی سراسر باطل ہے اس کی تفصیل لمبی گفتگوکی طلبگار ہے مختصرا کہا جائے تو احناف ممالک اور حنابلہ نے داڑھی کاٹنے کو حرام قرار دیا ہے الا یہ کہ احناف ایک مشت کے بعد اس کی اجازت دیتے ہیں اور یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس عصر کی وجہ سے ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے

 

ہاں شوافع میں سے بعض متأخرین نے اعفاء لحیہ کو مستحب کا درجہ دیا ہے اور اس کا کاٹنا مکروہ تنزیہی سمجھا ہے

گویا کی چاروں مذہب نے داڑھی کا کاٹنا حرام سمجھا ہے اور رہی بات مکروہ تنزیہی کی تو یہ صرف بعض متاخرین شوافع کے نزدیک ہے بقیہ تمام اس کے خلاف ہیں

داڑھی اور تکبر

 

موصوف اپنے اس بیان میں کہتے ہیں کہ داڑھی رکھنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی حیثیت سے نہیں دیا بلکہ ان لوگوں کے خلاف ورزی کے لیے دیا جو مونچھوں کو تکبر کے مقصد سے بڑھاتے تھے نیز او بسوں اور بدمعاشوں کی شکل سے اختلاف کرنے کے لیے اس کا حکم دیا اس کا جواب دو طریقوں سے دیا جا سکتا ہے

الف: اس کی کوئی دلیل قران و سنت میں نہیں ملتی جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ داڑھی تکبر سے بچنے کے لیے ہے البتہ یہ مقصد ضرور بتایا گیا ہے کہ یہ مشرکین مجوشیوں اور یہود کے خلاف ورزی ہے جیسا کہ حدیث ہے

“خالفوا المشركين،وفروا اللحي وأحفوا الشوارب”

ب: اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ تکبر سے بچنے کے لیے ہے تو وجوب کا حکم پھر بھی اپنی جگہ باقی رہے گا کیونکہ جب تکبر کی کوئی علامت بتلا دی گئی تو مسلمانوں کے لیے اس سے ظاہری و باطنی طور پر بچنا لازمی ہوگا یعنی اگر کوئی صرف دل میں یہ ارادہ کر لے کہ میں داڑھی تکبر کے لیے نہیں بلکہ کسی دوسرے سبب سے کاٹوں گا اور پھر داڑھی کاٹ لے تو یہ ارادہ کافی نہ ہوگا اس لیے داڑھی کا رکھنا اور اسے کاٹنا اپنی جگہ فرض اور لازم رہے گا

داڑھی کلچر ہے

موصوف کے اس پورے بیان کا مقصد ہی یہی تھا کہ داڑھی کو واجب تو کیا مستحب کے درجے میں بھی نہ رکھا جائے بلکہ اسے مباح اور کلچر قرار دے دیا جائے چنانچہ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ داڑھی عربوں کا کلچر تھا اس لیے اسے دین نہیں کہا جا سکتا

اس کا جواب کئی نہ ہیوں سے ہو سکتا ہے:-

الف: جب داڑھی پہلے سے عربوں میں جاری تھی تو اس کا خصوصی حکم دینا بے فائدہ معلوم ہوتا ہے اپ کا حکم اس بات کی دلیل تھی کہ داڑھی صرف کلچر نہیں بلکہ دین کا ایک جز بھی ہے

ب: اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹانے کا حکم دیا اور عوامیر کی اصل عجوب الا یہ کہ کوئی کرینہ ہو جب کی ایسا کوئی کرینہ احادیث کے مجموعے کو سامنے رکھنے پر نظر نہیں اتا لہذا قص الشارب اور اعفاء لحیہ اپنی اصل پر باقی رہیں گے

ج: اگر داڑھی کا بڑھانا اور مونچھیں کٹانا صرف کلچر ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مونچھوں کو چھوڑ دینے والے کو یہ سخت وعید نہ سناتے

“من لم ياخذ من شاربه فليس منا”

د: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث داڑھی کے دین کا جز ہونے پر صریح ہے

عشر من الفطرة قص الشارب و إعفاء اللحية……الخ

معلوم رہے کہ فطرت کی تفسیر اکثر علماء نے سنت سے کی ہے اور یہاں سنت سے مراد نبی کا طریقہ ہے نہ کہ مستحب۔چنانچہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ داڑھی دین کا حصہ ہے۔اس کے علاوہ بھی موصوف نے اس بیان میں کئی خلاف شرع باتیں کہیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ داڑھی اور اسلام کا کوئی ربط نہیں بلکہ یہ ایک کلچرل ہے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی ثواب نہیں الا یہ کہ انسان نبی کی محبت کا ارادہ رکھے۔

خلاصہ

خلاصہ کلام یہ ہے کہ موصوف کے تمام دعوے باطل اور بے سند ہیں اور وہ دعوے جن کی دلیل نہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔داڑھی کو معاف کرنا فرض اور واجب ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔اخر اخر میں یہ بیان کر دینا چاہوں گا کہ بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کی داڑھی سنت ہے یعنی مستحب ہے یاد رہے کہ داڑھی کو جہاں سنت کہا جاتا ہے وہاں اس طریقہ نبوی مراد لیا جاتا ہے وگرنہ حقیقی حکم تو وجوب کا ہے

اللہ تعالی ہمیں فتنوں سے دور رہنے کی توفیق ع غربتطا فرمائے اور وہ لوگ جو دین میں شکوک پیدا کرتے ہیں انہیں ہدایت سے نوازے۔(آمین)

مراجع ومصادر کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں 7800335681

برادرس کا فتنہ

 

خوش آمدید ۔  اگر آپ کے اندر لکھنے کی قابلیت ہے يا اپنے خیالات کو لفظوں میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو اس سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا 

اپنی تحریریں 7800335681 پر ارسال کریں 

شکرا

Spread the love

Leave a Reply