خوراک کی بھوک کے بعد دنیا کی سب سے بڑی بھوک سیکس کی بھوک ہے ۔ تحریر بری لگے تو پیشگی معذرت
ہندوستان میں مردوں کی عمومی طور پر شادی کی عمر پچیس سے لیکر تیس سال کی سمجھی جاتی ہے۔ عام طور پر اسکی وجہ مرد کے روزگار اور کمائی کو سمجھا جاتا ہے کہ جب تک ایک نوجوان اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوتا اسکی شادی لٹکی رہتی ہے اور دیکھا جائے تو یہ ایک ٹھوس اور مثبت جواز بھی ہے۔ جب مرد بیوی اور بچوں کی کفالت کی بڑی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہی نہ ہو تو شادی کرکے خود کو مزید پریشانی میں ڈالنے والی بات ہے۔اور لڑکیوں کی تعلیم بھی مکمل ہوتے، اچھے رشتے ملتے اتنی عمر گزر جاتی ہے۔۔ جبکہ آج کل بارہ سال کے بچے بچیاں بالغ ہو رہے ہیں، بلوغت اور شادی کے درمیان یہ دس پندرہ سال شدید ترین جنسی خواہش کے ہوتے ہیں ۔ نقصان اسکا لیکن بہت بڑا ہے جسکو والدین، خاص کر بطور ایک مرد، نوجوان کا والد بہت اچھی طرح سمجھتا ہے کیوںکہ وہ اسی پرائم ٹائم سے گزر چکا ہوتا ہے لیکن بوجہ مختلف مجبوریوں کے حالات کے بوجھ تلے دبا چپ رہتا ہے۔ ایک مرد کیلئے یہ ایک بلکل سیدھی اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اسکی جنسی طاقت، جنسی طلب، جنسی کشش اور جسمانی طاقت اور قوت اسکے عمر کے اٹھارہ بلکہ کبھی کبھی سترہ سال سے لیکر چوبیس یا پچیس سال کی عمر کی بیچ میں سر چڑھ کر بولتی ہے اور اس عمر میں جوانی کا بھر پور نشہ چڑھا ہوتا ہے اور یہی عمر شادی کرنے کیلئے سب سے موزوں عمر ہے۔ اسلام بھی اس عمر میں شادی کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ تیس سال کے بعد دھیرے دھیرے جنسی اور جسمانی طاقت میں کمی آنے لگتی ہے اور چالیس سال تک خوش قسمت اور صحتمند مرد پھر بھی جسمانی طور پر شکایت تو نہیں کرتے لیکن اسے اندر کی تبدیلی کا احساس ضرور ہوتا ہے اور کہیں نہ کہیں وہ تبدیلی جسے کمزوری بھی کہہ سکتے ہیں اسے کٹھکتی بھی ہے۔ چالیس سال کے بعد جنسی کمزوری کا لاحق ہونا ایک بالکل عام سی بات ہے جو تقریبا ہر مرد کا مسئلہ رہتا ہے چاہے وہ کتنا بھی پہلوان بننے کا دعوہ کرے۔ ہمارے قبائلی رواج کے مطابق، خاص طور پر دور دراز پہاڑوں میں رہنے والے لوگ اپنے بچوں کی 18 سے 20 اور بچیوں کی 14 سے 16 سال میں شادیاں کروا کر ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ لڑکا 25 سے 28 کی عمر تک تین یا چار بچوں کا باپ ہوتا ہے اور اسکے بعد وہ عملی زندگی شروع کرنے نکلتا ہے۔ باپ 40 کی عمر تک پہنچتا ہے تو اسکے بچے بھی کمائی اور روزگار کے قابل ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو انکے لئے یہی طریقہ کار بہترین ہے کہ پہاڑوں میں بسنے والے لوگ قدرتی ماحول کے زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ﺳﯿﮑﺲ ﯾﺎ ﺷﮩﻮﺕ ایک ہی چیز کا نام ہے۔۔ اس پر بات کرنا ہمارے معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن موقع ملے تو چھوڑتا کوئی بھی نہیں۔ ﺍﺱﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ حقیقت پسند کہتے ﮨﯿﮟ ﮐﮧﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ یہیں ﺑﮭﻮﮎ ﻣﺮﺩ اور ﻋﻮﺭﺕ کو نو عمری سے نو بڑھاپے تک ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﮎ حلال طریقے ﺳﮯ ﻧﮧ ﻣﭩﮯ ﺗﻮﺍﻧﺴﺎﻥ حرام ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﻼﺵﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ لہذا نکاح کو آسان بنائیں. اگر معاشی حالات اجازت دیں تو اپنے بچوں کی شادیاں کرانے میں دیر نا کریں۔ نا صرف جنسی کمزوری یا جنسی طاقت کی وجہ سے بل سلئے بھی کہ بیوی کے میسر آنے کے بعد نوجوان مرد بہت سارے گناہوں اور غلط کاریوں سے بچا رہتا ہے بلکہ عورت کیلئے بھی یکساں مفید فارمولہ ہے۔
آپ اس موضوع پر کیا رائے رکھتے ہی
Acchi tahreer hai
Lekin aaj kal ye sab koi nahi batata thanks
Ryt
یہ موضوع بہت زیادہ ضروری ہے اور یہ صرف لکھا نہیں جانا چاہیے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جگہ پر اس کے بارے میں بولا جانا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے سماج پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے اور اس میں چند دلائل کا بھی ذکر کرنا چاہیے تاکہ اگر یہ پوسٹ کسی اور تک پہنچے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ سب یوں ہی بنا سر پیر کی باتیں ہیں
دلائل: وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
(النور 32:24)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ ؛ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ ؛ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ ؛ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ “.
صحيح مسلم: كتاب النكاح: باب استقبال النكاح لمن تاقت نفسه اليه
Shukran