انسانی ارتقاء قرآن کی نظر میں

کسی بھی چیز کا درجہ بدرجہ ترقی کرنا ارتقاء کہلاتا ہے ۔

آج میں سائنس کے اعتبار سے بھی ثابت کر دونگا کی انسان بندر سے نہیں بنے ہیں

بحیثیت مسلمان سب سے پہلے یہ بتانا چاہونگا کہ سائنس اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔میں قرآن پر مکمل اعتماد کرتا ہیں اور رہی بات سائنس کی تو یہ خود کہتی ہے مجھ پر بھروسہ نہ کرو میں بدلتی رہتی ہوں

آپ بھی یہ بات اچّھےسے جانتے ہونگے۔۔۔ ارتقاء تو سمجھ میں آتی ہےلیکن انسانی ارتقاء کے سلسلے میں سائنس نے جس طرح کی بات پیش کی ہے یہ کبھی بھی سچ نہیں ہو سکتی ہے میں یہ اسلئے نہیں کہہ رہا کہ میرا مذہب ایسا نہیں کہتا بلکہ میں دنیاوی اعتبار سے بھی ثابت کرو نگا اور قرآن کے اعتبار سے بھی انشاء اللہ ۔اللہ مجھے حق بات کہنے کی توفیق دے۔۔۔۔ آمین
اگر مذہب کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں تو کائنات عدم سے وجود میں ائی اور پھر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اس کی تشکیل ہوئی۔ ایسا نہیں ہوا کہ ایک دم سے سب کچھ ویسا بن گیا ہو جیسا اس وقت نظر اتا ہے_اگر اس کو سائنس کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذہب اور سائنس میں کہیں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا_ ابتدا میں زمین کا درجہ حرارت ایسا نہیں تھا کہ یہاں زندگی ممکن ہوتی ہزاروں لاکھوں سال لگے اس کے درجے حرارت کو اعتدال تک انے میں انگنت سالوں تک اس پر بارش ہوتی رہی۔ پھر جا کر کہیں یہ کرہ اس قابل ہوا کہ یہاں زندگی ممکن ہو _

قران پاک میں ان تمام سوالوں کا جواب پہلے سے موجود تھا جسے سائنس نے اپنایا ۔
مثلا سورۃ الانبیاء ایت نمبر 30
ترجمہ _کیا منکروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے پھر ہم نے انھیں جدا جدا کر دیا، اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا، کیا پھر بھی یقین نہیں کرتے_
سورۃ النور آیت نمبر 45 ۔۔ترجمہ _اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے بنایا ہے_
سورۃ المومنون آیت نمبر 18 _
ۖ ترجمہ -اور ہم نے معین مقدار میں آسمان سے پانی نازل کیا پھر اسے زمین میں ٹھہرایا،
اسی طرح بہت سے دیگر مقامات پر قران میں آیتیں ارتقا پر موجود ہیں جس کی تفصیل سے مقالہ لمبا ہونے کا خدشہ ہے پر ارتقاء کے متعلق ایات موجود ہیں لہذا مطلق ارتقاء کا قرآن اور سائنس میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا_اب آتے ہیں دور جدید میں پیش کردہ ڈارون کے نظریے ارتقا کی طرف اس نظریہ کی بنیادی وہی قدیم نظریہ ہے جو کم و بیش ایک ہزار سال قبل الجاحظ نے اپنے مشہور زمانہ تصنیف” کتاب الحیوان “میں پیش کیا تھا جس کے متعلق وہی جاندار بقا پاتا ہے جو اپنے ماحول سے مطابقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے_اس نظریے کے دو حصے ہیں ایک مطلق جانداروں سے متعلق دوسرا صرف انسان سے متعلق جہاں تک مطلق زندگی اور جانداروں کے متعلق بات ہے تو وہ کسی حد قابل قبول اور سائنسی ہے_ کیونکہ اس کے بعد حصے آج بھی ظاہر ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں _ لیکن جہاں تک انسان کی بات ہے تو بطور مسلمان جب ہم قران کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس میں بہت بنیادی خامی یہ ملتی ہے کہ ڈارون کے مطابق انسان دیگر حیوانوں کی طرح ترقی پاتا ہوا چمپینزی کے آباؤ اجداد سے آگے بڑھتا ہوا ایک مقام پر اس سے الگ ہوا اور پھر ترقی کرتا ہوا انسان بنا۔چمپینزی کا فوٹو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔Chimpanzee foto .

انسانی تخلیق کے حوالے سے قران مجید میں متعدد ایات ہیں

سورۃ الحجر آیت نمبر 26

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَـمَاٍ مَّسْنُونٍ (26)

ترجمہ ۔ اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے تھی پیدا

نیچے اس ایت کریمہ میں اللہ پاک نے انسان کے سوا تمام جانداروں کی تخلیق کی بات کی ہے
سورۃ النور آیت نمبر 45

وَاللّـٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّـآءٍ ۖ فَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّمْشِىْ عَلٰى بَطْنِهٖۚ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّمْشِىْ عَلٰى رِجْلَيْنِۚ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّمْشِىْ عَلٰٓى اَرْبَـعٍ ۚ يَخْلُقُ اللّـٰهُ مَا يَشَآءُ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (45)

ترجمہ۔۔ ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا تو اُن میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، اور بعض ان میں سے دو پاؤں پر چلتے ہیں، اور بعض ان میں سے چار پاؤں پر چلتے ہیں، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے_

سورۃ السجدہ آیت بمبر 7ترجمہ ۔ انسان کی اوّل پیدائش مٹی سے کی ۔کہیں پر مٹی کا ذکر ہے ۔۔ تو کہیں پر مٹی اور پانی کے ملاپ کا۔۔ اور کہیں صرف پانی کا ۔۔ اکثر جگہوں پر پانی اور مٹی کا ذکر ہےلیکن ان آیات کو جن میں انسان، آدم ، بشر، کی تخلیق کی بات کی گئی ہے وہاں پر اسلوب صاف صاف بتا رہا ہے کہ کسی ایک نوع کی بات کی جا رہی ہے_

سورۃ سجدہ آیت نمبر 8۔9

ترجمہ ۔پھر اس کے اعضا درست کیے اور اس میں اپنی روح پھونکی، اور تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنایا، تم بہت تھوڑا شکر کرتے ہو۔
ترجمہ ۔ پھر اس کی اولاد نچڑے ہوئے حقیر پانی سے بنائی۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُـمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُـمَّ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَـةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَۖ

سورۃ الاعراف ایت نمبر 11۔

ترجمہ ۔ اور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔

۔۔۔۔خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُـمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُـمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا ۔

ترجمہ ۔ جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے بنایا پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا۔

سورۃ ص آیت نمبر 71

ترجمہ ۔ جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک انسان مٹی سے بنانے والا ہوں۔

سورۃ انفطار آیت نمبر 7۔8 اردو مفہوم

جس نے تجھے پیدا کیا پھر تجھے ٹھیک کیا پھر تجھے برابر کیا۔

جس صورت میں چاہا تیرے اعضا کو جوڑ دیا۔یوں جب ان تمام آ یات کو ملا کر دیکھتے ہیں غور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی تخلیق پیدائش اور ارتقا ایک الگ نو یعنی نوع انسان کے طور پر ہی ہوا اور اسی میں شرف انسانی بھی پوشیدہ ہے

۔


Spread the love

Leave a Reply