جنات کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں

حرف آغاز

جنات اپنی فطرت وطبیعت کے لحاظ سے ایک غیر مرئی مخلوق ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے اپنی عبادت کے لئے آگ کے شعلے سے پیدا کیا ہے اور انہیں مختلف روپ دھارنے کا ملکہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طاقت وقوت سے سرفراز کیا ہے.ذیل کے سطور میں جنات کے تعلق سے ایک اجمالی خامہ فرسائی کی گئی ہے.

جنات کی تعریف

“جن وہ صاحب عقل اجسام ہیں جو نظر نہیں آتے ان پر ہوائی اور آتشی مادہ غالب ہوتا ہے۔

جنات کی تعریف کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :هم أجسام عاقلة خفية تغلب عليهم النارية والهوائية.

[فتح القدیر 303/5]

جنات کے ثبوت میں قرآنی دلائل

جنات ایک آتشی مخلوق ہیں جس کا ثبوت قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہے اللہ رب العالمین نے ان کے نام سے قرآن کی ایک سورت بنام “سورۃ الجن” نازل فرمائی ہم یہاں قرآن مجید سے چند دلائل ذکر کرتے ہیں جو آتشی مخلوق جنات کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا۔

:وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ.

[سورۃ الاحقاف :29]

اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں “

اور دوسری جگہ فرمایا

“وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ.

[سورة الحجر :27

اوراس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا” ۔

ان آیات مبارکہ سے یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ جنات کی ایک حقیقت ہے ان کا وجود ہےان کا انکار ممکن نہیں.

جنات کے ثبوت میں حدیثی دلائل

احادیث صحیحہ ہر ایک طائرانہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کو اس آتشی مخلوق کے متعلق واضح ارشادات مرحمت فرمائے ہیں جو اس کے وجود پر دلالت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ، فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ قَالَ : فَانْطَلَقَ بِنَا، فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ”.[صحيح مسلم :450]

میرے پاس جنوں کی طرف سے ایک بلانے والا آیا تو میں اس کے ساتھ چلا گیا اور ان پر قرآن کی تلاوت کی .(ابن مسعود) کہتے ہیں کہ پہر آپ ہم کو اس جگہ لے گئے اور وہاں جنوں کے اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے”.

اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا

إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”.[صحیح بخاری :609]

میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے”.مذکورہ بالا احادیث صحیحہ کی روشنی میں یہ بات پائے ثبوت کو پہونچ جاتی ہے کہ دنیا میں جنات کی ایک حقیقت ہے فاسد تاویلات کے ذریعہ قطعی طور پر اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا .

جنات کے ثبوت میں عقلی دلائل

انسان کامل العقل نہیں ہے بلکہ ناقص العقل ہے جیسے جیسے اس کی پرورش وپرداخت ہوتی جاتی ہے بحث وتحقیق میں آگے بڑھتا جاتا ہے بہت ساری چیزیں جس سے وہ ابتداء ناواقف تہا مرور ایام کے ساتھ اس سے واقف ہوتا جاتا ہے لیکن علم کی انتہا اور اس میں کمال کو کبہی نہیں پہونچتا اس لئے بحیثیت انسان بہت ساری چیزیں جو حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں ضروری نہیں کہ ہر انسان اس کا ادراک کرسکے لھذا کوئی بہی عاقل محض عدم ادراک کی وجہ سے ان حقیقتوں کا انکار نہیں کرسکتا اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ناقابل اعتبار سمجھا جائے گا اس لئے کہ جب اس کا علم کامل نہیں اس کی عقل کامل نہیں تو ضرور ہے کہ اس کا مرئی وغیر مرئی تمام اشیاء کی حقیقت کا ادراک کرنا بہی غیر کامل ونامکمل ہو اور قاعدہ “عدم رؤیت سے عدم حقیقت لازم نہیں آتا “چنانچہ عبد الکریم عبیدات لکھتے ہیں کہ

إن العقل لا يمنع من وجود عوالم غائبة عن حِسِّنا، لأنه قد ثبت وجود أشياء كثيرة في هذا الكون لا يراها الإنسان ولكنه يحس بوجودها، وعدم رؤية الإنسان لشيء من الأشياء لا يستلزم عدم وجوده. [عالم الجن فی ضوء الکتاب والسنۃ :82_83]

عقل کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم اس غیبی دنیا کا انکار کردیں جنہیں ہم دیکھتے نہیں اس لئے کہ اس دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جنہیں انسان آنکھوں سے نہیں دیکھتا پہر بہی اس کے موجودہونے پر یقین کرتا ہے لہذا کسی بہی چیز کو نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا وجود ہی نہیں ہو”.

آگے مزید لکھتے ہیں :کہ

ان نهاية العقل البشري هي العجز عن إدراك اسرار الكون وإن اكبر الجهل ان ننكر ما في الكون من آيات الله وعجائب الخلق بدعوى أنها أشياء فوق العقل والتصور لا بد للإنسان أن يرتد صاغرا ذليلا إلى عالم الإيمان والروح ان يرتد مؤمنا بقوة فوق عقله وبعوالم فوق ما يدرك الحس وما يعرف بالمشاهدةفَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَا تُبۡصِرُوۡن وَ مَا لَا تُبۡصِرُوۡنَ [الحاقة:38_39]إن كل ما يتعلق بعوالم غير المنظورة كالجن والملائكة والأرواح يجب أن تخضع عقولنا حيالها إلى ما جاء به الوحي لاننا بالعقل وحده نضل في فهم الروحانيات والغيبيات. [عالم الجن فی ضوء الکتاب والسنۃص88]

ترجمۃ انسانی عقل کی انتہا ودرماندگی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ وہ اس کائنات کے بے شمار اسرار ورموز سے ناواقف ہے اور یہ بہت بڑی جہالت کی بات ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کی جو عظیم نشانیاں و عجائبات ہیں ان کا انکار ہم صرف اس وجہ سے کردیں کہ وہ عقل وتصور سے باہر ہیں اللہ تعالی فرماتاہے {پس میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہواور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے} بے شک جن چیزوں کا تعلق بہی غیبی دنیا سے ہے مثلا جنات فرشتے اور روحوں کا وجود وغیرہ اس کو تسلیم کرنے کے لئے اپنی عقل کو وحی مقدس (قرآن سنت) کے حوالے کردیں کیونکہ روحانیت اور غیبیات کی حقیقت جاننے کے لئے صرف عقل پر اعتماد کرنا ہماری گمراہی کا سبب ہے”.

علامہ محمد رشید رضا(متوفی1354ھ) لکھتے ہیں

ولو كان الاستدلال بعدم رؤية الشيء على عدم وجوده صحيحاً وأصلاً ينبغي للعقلاء الاعتماد عليه، لما بحث عاقل في الدنيا عما في الوجود من المواد والقوى المجهولة، ولما كشفت هذه الميكروبات التي ارتقت بها علوم الطب والجراحة إلى الدرجة التي وصلت إليها،[تفسیر المنار:366/8]

ترجمۃ۔۔ اگر کسی چیز کے نہ دیکھنے سے اس کے عدم وجود پر دلیل لانا صحیح ہوتا تو دنیا کا کوئی بہی ہوش مند انسان اس عالم موجودات میں غیر محسوس طاقتوں اور نظروں سے اوجھل مادوں کی تلاش نہ کرتا اور طب وجراحت کے میدان میں جن تاریک ترین جراثیم کی کھوج کی گئی ہے ان کا انکشاف نہ ہوتا”.

جن وشیاطین کے درمیان فرق

بسا اوقات جنوں کی جگہ شیطانوں کا اور شیطانوں کی جگہ جنوں کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک مخلوق ہیں یا دو الگ الگ مخلوق ؟بنیادی طور پر دونوں ایک ہی جنس یعنی جنوں کی جنس سے ہیں اور دونوں آگ سے پیدا کئے گئے ہیں اس لحاظ سے جنات اور شیاطین میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا البتہ ایک دوسرے لحاظ سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے وہ یہ کہ جنوں میں نیک وبد مسلم وغیر مسلم ہر طرح کے جن پائے جاتے ہیں جبکہ شیاطین عام طور پر ان جنوں کو کہا جاتا ہے جو انتہائی بد شریر غیر مسلم اور کافر ہیں گویا ہر وہ جن جو انتہائی سرکش نا فرمان اور اللہ تعالی کا باغی ہو شیطان کہا جاتا ہے کیونکہ شیطان کا لغوی مطلب ہے سرکش یہی وجہ ہے کہ انسانوں جنوں اور جانوروں میں سے جو کوئی سرکشی کرے اسے عربی لغت کی رو سے شیطان کہہ دیا جاتا ہے .

Spread the love

Leave a Reply