اسلام اور سائنس

حرف اغاز

عہد کہن کہ حالات کی معرفت ان اثار سے حاصل ہوئی جو زمانے کی مسلسل تبدیلیوں سے گزرتی ہوئی ہم تک پہنچی لا تعداد بستیاں بسیں اور فنا ہو گئیں قدرتی آفات و مصائب آئے مختلف قسم کی بیماریاں طوفان زلزلے وغیرہ ان ساری چیزوں کو آج کے سائنس نہ تحقیق و تفتیش کر کے ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں اسی طرح زندگی اور موت، سورج چاند، ستارے سیارے، موسم میں ہونے والی تبدیلیاں مشرق سے نکلتا سورج اور مغرب میں ڈوبتے افق کی شوخی یہ چیزیں بنی نوع انسان کو دعوت تفتیش دیتی ہیں اسی لیے رفتہ رفتہ مشاہدات اور تجربات بڑھتے گئے اور مختلف قسم کی ٹیکنالوجی کی ایجاد ہوتی گئی جس کے ذریعے مختلف موسموں میں ہونے والی تبدیلیاں اور اسی طرح سورج چاند اور ان کے علاوہ دیگر سیاروں کے گردش کا اندازہ لگایا جاتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی آنے سے قبل مختلف بیماریوں میں ملوث لوگ کثیر تعداد میں عالم جاویدانی سے جا ملتے مگر جب ٹیکنالوجی میں غیر متوقع ترقیاں ہوئیں تو مختلف قسم کے طبی آلات کو لوگوں نے اپنی کاریگری سے وجود میں لایا جس سے مرنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی آئی

اسلام اور سائنس

جہاں آج مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ نئی نئی تحقیقات پیش کرنے کی دعوت ایک دوسرے کو دے رہے ہیں وہیں ہمارا دین اسلام بھی جو کی تمام ادیان میں سب سے افضل ہے بقیہ مذاہب کے بالمقابل مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے آسانیاں فراہم کی ہیں لہذا مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس جانب آنے کی دعوت پیش کی ہے اور بے شمار افراد اسی میدان میں آئے اور انہوں نے بے بہا خدمات انجام دے کر اس دنیا پر احسان عظیم کیا

تحقیق و تفتیش کی دعوت ہمیں عہد نبوی کے اس واقعے سے ملتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ کھجور کے پیڑوں پر تلقیح(pollination ) کا عمل کر رہے ہیں تو اپ نے ان لوگوں سے کہا کہ میرا گمان ہے کہ نسی عمل سے تمہاری فصلوں میں کوئی بڑھو تری نہ ہوگی تو لوگوں نے تلقی کے عمل کو ترک کر دیا نتیجہ اس سال فصلوں کی پیداوار میں بہت بول زیادہ کمی ہو گئی تو جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تلا ہوئی ہے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم لوگ میرے گمان کی اتباع مت کرو جب میں تم سے اللہ کی بابت بات کروں تو اسے اختیار کر لو مگر اپنی دنیا کے بارے میں تم مجھ سے بہتر جانتے ہو لہذا اپنے تجربے کی مطابق عمل کرو

اسلام دین فطرت ہے اور مسلمانوں کی زندگی کے تمام تر عملی اخلاقی اور تمدنی چشمے صرف دو ہیں ایک کلام ربانی جسے ہم وہی الہی سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جسے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جانتے ہیں لہذا ہمیں سائنس کی نعمتوں کو انہی دو چشموں میں تلاش کرنا چاہیے البتہ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ علم سائنس اور اسلام کی تعلیمات میں کوئی متابت نہیں جب کی ایسا نہیں ہے خود اللہ رب العالمین نے قران مجید میں کائنات کے اسرار و رموز میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے چنانچہ فرمان ربانی ہے

(سنريهم اٰياتنا في الاٰفاق وفي أنفسهم حتى يتبين لهم أنه الحق)

“عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک ان پر واضح ہو جائے گا کہ حق یہی ہے”

یہ گویا سائنس کی تعلیم حاصل کرنے سے انسان کائنات کے اسرار و رموز سے واقف ہوتا ہے جس سے اللہ تعالی کی معرفت حاصل ہوتی ہے ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے اپنی خلقت میں تدبر و تفکر پر ابھارتے ہوئے فرمایا

(أفلا ينظرون إلى الابل كيف خلقت والى السماء كيف رفعت )

“کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیے گئے ہیں اور اسمان کو کس طرح اونچا کیا گیا ہے”

اس کے علاوہ قران کریم کی بے شمار ایتیں ہیں جو کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی مخلوق الہی میں تدبر و تفکر کی دعوت دیتی ہیں جدید اسکالروں کہ کول کے مطابق قران مجید کی تقریبا 750 ایتیں اصول کے عین موافق ہیں یعنی قران کریم کی ایتوں پر غور کرنے کے بعد ان اصولوں کی بنیاد رکھی گئی ہے کیونکہ نزول قران مقدم ہے لہذا کچھ ایسے ایتیں اور حدیثیں پیش کی جا رہی ہیں جن کی روشنی میں رہنمائی حاصل کر کے جدید سائنس ریسرچ کے ما بعد دیات وضع کیے گئے ہیں یعنی نصوص شرعیہ سے مستفاد مسائل کو انہوں نے اپنے ریسرچ کا ماخذ بامقصد قرار دیا ہے

ماضی قریب میں جرمن کے سائنس دانوں نے شہد کی مکھی کے متعلق ایک تحقیق پیش کی تھی ان کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں ایک خاص قسم کی رطوبت خارج ہوتی ہے جو مختلف امراض کے علاج میں مفید ہوتی ہے چنانچہ اس کا نام انہوں نے Royal jelly تجویز کیا ہے لیکن قران نے اس طرف اشارہ 14 سو سال پہلے ہی کر دیا تھا چنانچہ فرمان الہی ہے

(يخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فيه شفاء للناس)

“ان کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے”

عہد حاضر کے سائنس دانوں نے ایک تحقیق پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کتا جس برتن میں منہ ڈال دے اس کو پانی اور مٹی سے دھونا ضروری ہے کیونکہ کتے کے لعاب میں ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے نہایت ہی مضر اور ضرر رساں ہوتے ہیں اور یہ جراثیم بغیر مٹی اور پانی کے دور نہیں ہو سکتے خواہ اس پر کسی بھی قسم کا مادہ استعمال کر لیا جائے

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس امر کی وضاحت قدر تفصیل سے موجود ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(طهور اناء احدكم اذا ولغ فيه الكلب أن بغسله سبع مرات اولا هن بالتراب)

“کتا جب تمہارے کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو سات مرتبہ دھونا چاہیے پہلی بار مٹی سے دھونا ضروری ہے”

اسی طرح دور حاضر کے سائنس دانوں نے پتہ لگایا کہ ہمارے سیارہ کے علاوہ اور بھی سیارے ہیں مگر یہ چیز قران نے بہت پہلے بتا دی فرمان بہار تعالی ہے

(رب المشركين ورب المغربين)

اس کے علاوہ خلا بازوں اور ڈیلی اس کو یہ بھی پتہ لگایا کہ یہ کہے کیسا ہم سے کھربوں میل کی دوری پر واقع ہیں مگر اللہ تعالی نے پہلے ہی اس چیز کو قران کے اندر بتا دیا

(والسماء بنيناها بايد وانا لموسعون)

اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے اس کائنات کو بنایا ہے اور اس میں کشادگی کرتا رہتا ہے

امریکی خلائی سائنس ڈاکٹر نیل آرم سٹرانگ،جنہوں نے قرآن کے اندر فلکیات کا مشاہدہ کیا وہ کہتے ہیں میں اس بات سے کافی متاثر ہوا کہ اتنی پرانی کتاب کے اندر سیاروں کا تذکرہ کیسے ہو سکتا ہے

اس طریقے سے انسانی جسم اللہ رب العالمین کا عظیم شاہکار ہے انسانی جسم بہت بڑا نہیں ہے لیکن اگر ہم اس میں غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک ایسی مشین ہے جس کے بنانے یا پیدا کرنے پر اللہ کے سوا کوئی قادر نہیں اور اس کے باوجود دنیا کے اندر کروڑوں انسان ہیں اور ان کے prints اپس میں نہیں ملتے یہ ایک اپسی راز ہے جس کا انکشاف اب تک نہیں ہو سکا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

Hamm اور leeuwen Hoek پہلے سائنس تھے جنہوں نے انسانی شکرانو (spermatozoa) کا 1977 پتہ لگایا مگر اللہ تعالی نے 1400 سال پہلے ہی قرآن مجید کے اندر اس کا ذکر کر دیا تھا فرمان الہی ہے

ولقد خلقنا الانسان من سلالة من طين…..آیت نمبر 12 سے 14 تک سورہ مومنوں

مراجع ومصادر۔

Spread the love

Leave a Reply