شادی بیاہ کے موجودہ رسوم و رواج اسلام کی نظر میں

حرف آغاز

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے پوری انسانیت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے انسانی زندگی میں پیش آنے والے معاملات عقائد و عبادات اخلاق و عادات کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ اسوۂ حسنہ کی صورت میں موجود ہے

پوری دنیا کے مسلمانوں کو اپنے معاملات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق انجام دینا چاہیے اسی میں مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی ہے لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ دور کے مسلمانوں نے شیطانی راہ کو اختیار کر کے یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے شیطان کی اتباع کی مثالوں میں سے ایک اہم مثال شادی کے غلط رسم و رواج بھی ہیں

موجودہ رسم و رواج اسلام کی نظر میں

١) منگنی کرنا :

اس میں بہت سے خرافات شامل ہیں مثلا لڑکے اور لڑکی کو سسرال والوں کو کپڑے اور زیور دینا لڑکے اور لڑکی کے تمام رشتہ داروں کے کپڑے بنانا انگھوٹھی پہنانا کسی ہوٹل وغیرہ میں منگنی کی تقریب کرنا کارڈ چھپوانا لڑکے لڑکی کی دوستوں اور سہیلیوں کا اکٹھا ہونا ڈھولک بجانا اسٹیج پر لڑکے لڑکی کو ساتھ بٹھا کر ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنوانا مٹھائی تقسیم کرنا منگنی پر لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو انگوٹھی پہناتے ہیں جبکہ شرعا نکاح سے قبل دونوں ایک دوسرے کے نامحرم ہوتے ہیں اور یہ سخت بے حیائی اور قبیح گناہ ہے

۲) منہ دکھائی

لڑکی جب سسرال جاتی ہے تو تب تک اپنا منہ ننگا نہیں کرتی جب تک کی ایک مخصوص رقم اپنی ساس سے وصول نہ کر لے پھر ہر عورت منہ دکھائی کے لیے کچھ نہ کچھ دیتی ہے دیور کو دلہن کی گود میں بٹھایا جاتا ہے چاہے وہ نوجوان ہی کیوں نہ ہو اور وہ دلہن سے رقم لے کر ٹلتا ہے اگر دیور نہ ہو تو کوئی دوسرا چھوٹا بچہ یا دلہن کا کزن دیور بن کر دلہن سے نظرانہ وصول کرتا ہے

٣) ہنی مون یا ماہِ غسل منانا

نکاح کے بعد دولہا دلہن کسی من پسند سبز گاہ یا ہوٹل میں جا کر کچھ دن یا کچھ ہفتے سیر و تفریح کرتے ہیں یہ دراصل انگریزوں کی رسم ہے اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں

دور حاضر میں سیر و تفریح کے مقامات فتنوں اور بےحیائیوں کے مراکز ہیں لہذا ایک عفت مآب مسلمان عورت کا وہاں جانا یا کسی باغیرت مرد کا اپنی بیوی کو وہاں لے جانا ہی ناممکن ہے

٤) جہیز کی رسم

ہندو مذہب میں رواج تھا کہ لڑکیوں کو میراث نہیں دیتے تھے انہوں نے سوچا کہ آخر بیٹی ہے باپ کے مال سے اسے کچھ نہ کچھ ضرور ملنا چاہیے اس کے بدلے میں انہوں نے شادی کے جوڑے زیورات اور دوسرے اشیاء مقرر کر دیں اسی طرح یہ رسم مسلمانوں میں بھی داخل ہو گئی پھر یہ رسم برادری کے مقابلے کی وجہ سے بڑھتی چڑھتی گئی اب یہ ہار ہے کی رسمی جہیز جب تک پورا نہ ہو جائے جوان لڑکیاں گھروں میں بند کر دی جاتی ہیں بعض لڑکیاں بیٹھے بیٹھے اپنی شادی کی عمر تک کھو بیٹھتی ہیں اور بعض امراض کا شکار ہو جاتی ہیں یہ رسم اتنے عروج تک پہنچ چکی ہے پہلے لڑکے والے لڑکی کی شرافت اور دوسری خوبیاں تلاش کرتے تھے اب یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکی جہیز میں کس قدر مال سمیٹ کر لے آۓ گی

٥) بارات

لڑکے والے اپنے ساتھ 50 سے لے کر پانچ پانچ سو تک افراد کو ساتھ لے کر ڈھول باجے بجاتے، آتش بازی کے گولے چھوڑتے، دولہا کو سہرا گانا، روپیوں اور پھولوں کے ہار پہناتے،گھوڑی کار کو سجا کر روپیوں اور سکوں کی سوٹ کرتے ہوئے لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں گھر یا حال میں داخل ہوتے ہوئے لڑکی کی سہیلیاں لڑکے والوں کا راستہ بند کر دیتی ہیں اور حسب پسند رقم لے کر راستہ کھولتی ہیں پھر دولہے کو مرچیاں یا نمک یا کوئی اور کڑوی چیز ملا کر دودھ پلاتی ہیں دودھ پلائی کے لیے گلاس بھی خصوصی طور پر سجایا بنایا جاتا ہے نیز اور بھی بہت سی خرافات ہوتی ہیں

باراتیوں کے لیے خصوصی طور پر بہترین کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے لڑکی والوں کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ عزت رہ جائے اس لیے لڑکی والے فکر مند بھی ہوتے ہیں اور بھاگ بھاگ کر براتیوں کی تواضع اور مہمان داری بھی کرتے ہیں

٦) مہندی لگانے کی رسم

زیب کے لیے مہندی لگانا عورتوں کے لیے تندرست ہے مگر مادوں کے لیے اسلام میں اجازت نہیں ہے دور نبوت میں ایک ہجڑے نے مہندی لگائی تھی اجر و صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے شہر سے نکال دیا تھا دولہے کو مہدی لگانے کی رسم ہندوؤں سے اخذ کی گئی پھر یہ رسم مسلمان بادشاہوں کے گھروں میں گھس گئی اس وجہ سے عمرہ اور غربہ میں ایک امتیازی رسم بن کر رہ گئی

٧) سلامیاں دینا

جب لڑکا اور لڑکی دلہن بن کر بیٹھتی ہیں تو انہیں مدعو تمام لوگ اپنی اپنی طرف سے رقم دیتے ہیں جو باقاعدہ لکھی جاتی ہے اسے اسلامی دینا کہتے ہیں دولہا دلہن سلامی کی رقم لے کر اپنا ماتھے تک ہاتھ لے جا کر رقم دینے والے کو سلام کرتے ہیں نیز سلامی کی یہ رقم دینے والا جب اپنے کسی فرد کی شادی کرتا ہے تو اتنی یا اس سے زیادہ رقم لوٹانا ضروری ہوتا ہے

حرف آخر

آج شادی اسلامی طور طریقے پر نہیں کی جاتی ہے شادی میں بارات لانا اور جہیز کی مانگ رکھنا فیشن بن چکا ہے افسوس صد افسوس کہ ہم نے لڑکیوں کے والدین پر ظلم کرنا شروع کر دیا ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس غلط رسم کو ختم کرکے اسلامی طور طریقے اور سنت کے مطابق شادی کریں۔

مراجع مصادر ۔۔

۱ ۔شادی کی رسومات دعوتیں اور اُن میں شرکت

۲ ۔شادی کی رسومات

۳۔ شادی کی جاہلانہ رسمیں

Spread the love

Leave a Reply