برادرس کا فتنہ

اصل و نقل میں تفریق

انسانی فطرت میں یہ شامل ہے کہ ادنی سے ادنی چیز کی خرید و فروخت کے وقت اصل و نقل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور ہر میدان میں ایسے ماہر اور متخصص کی تلاش ہوتی ہے جو مطلوبہ کا بخوبی جانتا ہو

اگر کسی نے ڈرائیورنگ نہیں سیکھی ہے تو ہمیں اس کی گاڑی میں بیٹھنا گوارا نہیں گرچہ فری سروس ایک کیوں نہ ہو۔ شریعت کی رہنمائی حاصل کرنے کا معاملہ بھی اس سے جدا نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور سنگین معاملہ ہے کیونکہ اس کا تعلق صرف دنیا سے نہیں اخرت سے بھی ہے قران مجید نے اسی فرق کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے

(هل يستوى الذين يعلمون والذين لا يعلمون)

جس طرح بینا و نابینا، دھوپ اور سایہ،گرمی اور سردی برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح کا عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے اسی لیے صحیح اور ٹھوس معلومات کے لیے ہمیں اسی طرح احتیاط برتنے کی ضرورت ہے جس طرح دنیاوی معاملات میں ہم برتتے ہیں اور یہی ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے

(فاسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون)

اگر تم نہیں جانتے تو علماء سے پوچھ لو گویا کہ اسلام نے اس ایت کی تنزیل کے ذریعے ہمیں یہ بتلا دیا کہ احکام اسلام زی علم سے ہی لیے جائیں ہر رات چلتے مسافر سے نہیں کیونکہ جس طرح ہر میدان میں بعض اناڑی پائے جاتے ہیں اسی طرح شرعی مسائل کے رہنمائی کی میدان میں بھی ان کی کمی نہیں ہے

برادرس کی تعریف

برادرس کا اطلاق ایسے حضرات پر کیا جاتا ہے جنہوں نے بتدریج کسی استاد سے (چاہے مدرسے میں ہو یا غیر مدرسے میں) کتاب و سنت کا علم حاصل نہ کیا ہو اور نہ ہی کسی معروف سلفی عالم نے ان کے علم کی شہادت دی ہو جو شریعت کو اس کے اصل مصادر سے سمجھنے کی نہ ہی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی ادلئہ شرعیہ سے مسائل دین کا استنباط کر سکتے ہیں۔

اور یہ صلاحیت و اہلیت علوم اسلامیہ مثلا صرف، نحو، عربی زبان ،عقیدہ، فقہ، اصول فقہ، حدیث، علوم حدیث، تفسیر، اصول تفسیر وغیرہ فنون کو پڑھے اور سمجھے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی ہے

برادرس کا نشر اسلام کے جواز کی دلیل

برادرز حضرات اپنے اقدام کے جواز میں بعض شرعی نصوص سے بھی استدلال کرتے ہیں لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے اس میں بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(بلغوا عني ولو آيه)

حالانکہ یہ حدیث ان کی تائید نہیں بلکہ تردید پر دلالت کرتی ہے۔۔ اس حدیث سے سلف صالحین نے قتال یہ نہیں سمجھا جو برادرس نے سمجھ لیا ہے کہ کوئی عام آدمی جس نے کسی استاد سے کتاب وسنت کا علم حاصل نہیں کیا محض کتابوں کے ذاتی مطالعے سے شرعی مسائل پر دوسروں کی رہنمائی کرکے اپنے آپ کو داعی ،مبلغ ،عالم و مفتی کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگے بلکہ ان کا تعامل اس فہم کے بلکل برعکس تھا ۔

سلف کا تعامل

سلف کے زمانے میں بھی بہت سارے نا اہل ایسے تھے جو اپنی نااہلی کے باوجود علم کی نشر واشاعت میں مشغول تھے جنہیں آج کی اصطلاح میں ہم برادرز کہتے ہیں ان کے ساتھ سلف کا تعامل کیسے رہا اگر جاننا ہو تو “صحیح مسلم” کا مقدمہ اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی مایا ناز کتاب “الکفایہ فی معرفۃ اصول علم الروایۃ” اور انھیں کی “الفقیۃالمتفقۃ” اٹھائیں ۔

انہوں نے واضح انداز میں تفصیل بیان کیا ہے کہ سلف کا ان کے تئیں کیا موقف تھا امام مسلم رحمہ اللہ ابو زناد رحمہ اللہ جیسے غار تابعین میں سے ہیں نقل کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں ایسے س لوگوں کو پایا جو دین و امانت کے معاملے بالکل مامون تھے لیکن ان سے حدیث قبول نہیں کی جاتی تھی اور کہا جاتا وہ اس کے اہل نہیں ہیں اور الکفایہ میں یہ بھی ہے کہ وہ اہل علم میں سے نہیں ہے امام مالک ایسے لوگوں سے علم حاصل نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے یہ علم علماء سے نہیں سیکھا تھا بلکہ کتابوں سے رٹ لیا تھا سلیمان بن موسی جو تابعین میں سے ہیں فرماتے ہیں کتابوں سے علم حاصل کرنے والوں سے علم نہ لو الکفایہ عبدالرحمن بن زید بن جابر جو تبع تابعین میں سے ہیں فرماتے ہیں صرف ایسے شخص سے علم حاصل کیا جائے جس کے متعلق طالب علم کی شہادت دی گئی ہو خارجہ بن زید بن ثابت رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان سے علم حاصل کرو جن کا پیسہ علم ہو چنانچہ خطیب بغداری رحمہ اللہ نے “الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع”میں بہت سارے ایسے برادرس کی مثالیں پیش کی ہیں جنہیں مصحف تک پڑھنا نہیں اتا اور انہوں نے ایسی ایسی فاس غلطیاں کی ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں مثلا ایک نے سورہ نوح کی آیت نمبر 23 میں “ونسرا” کی جگہ”وبشرا” پڑھا۔جب انہیں کہا گیا کہ یہ”بشرا “نہیں بلکہ “نسرا” ہے تو جواب دیا اوپر تو تین نقطے ہیں کہا گیا یہاں نقطوں کا ہونا غلط ہے تو اسے مسکین کا جواب تھا میں اصل نسخے کی طرف رجوع کروں گا اگر اس نے مصحف سے نہ سیخ کر کسی استاد سے سیکھا ہوتا تو یہ نوبت نہ اتی اسی طرح بے شمار مثالیں ہیں استاد کے بجائے مصحف سے قرآن سیکھنے والے برادر کے احوال جاننا ہو تو ابو احمد العسکری کی کتاب “اخبار المصحفین” کی طرف رجوع کریں

حقیقی وارث کون؟

دعوت اللہ انبیاء علیہ الصلاۃ والسلام کا وظیفہ ہے جنہیں اللہ تعالی نے بندوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے خصوصی انتخاب سے مشرف فرمایا ہے انبیاء علیہم السلام کے بعد اس وظیفہ کے حقیقی وارث علماء کرام ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(العلماء ورثة الانبياء)

فتنوں کا دور

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خطاب کرتے ہوئے تنبیہ کی آج تم ایک ایسے زمانے میں ہو جس میں علماء زیادہ اور خطباء کم ہیں اور بعد میں ایک زمانہ آئے گا جس میں خطباء زیادہ اور علماء کم ہوں گے ۔۔ آپ نے یہ اندیشہ ظاہر کردیا تھا کہ فتنوں کا زمانہ آئے گا جس میں اسپیکروں کی بہتات ہوگی لوگ عالم سے زیادہ اسپیکر بننے کی کوشش کریں گے۔

آج ہم میں کا ہر فرد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تحسین گوئی کو حقیقت کی شکل میں ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔۔ اج داؤد اور دائی کے نام سے ہر شخص میدان میں کود پڑا ہے جو عربی زبان سے نا اشنا ہے علم میں شریعت سے ناواقف ہے اصول سے نابلد ہے لیکن پھر بھی وقت کا علامہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔۔ لیکن پھر بھی وقت کا علامہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ جلسہ جلوس منعقد کرنے والے ذمہ داروں کا نقطہ نظر عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جلوسوں اور اجتماعات میں ایسے اشخاص کو لایا جائے جس کو سننے کے عوام مشتق ہوں

اور نوجوان ان نام نہاد داعیان اسلام ، علم کے شہرت اور ناموری کو دیکھا دیکھی خود بھی ان کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں عوام الناس انہی کو علماء سمجھ بیٹھتے ہیں انہیں سے فتویٰ پو چھنے لگتے ہیں یہاں تک کی اپنا امام تک مان کر اندھی تقلید کرنے لگتے ہیں اور باقاعدہ علماء نظر انداز کیے جاتے ہیں اور ان کو اگے بڑھایا جاتا ہے اس فتنے کے نتیجے میں جہل ہندوستان اور بر صغیر میں اتنا عام ہو گیا ہے کہ اپ ان لوگوں کی کتابات اور وعظ و نصیحت کو سن لیں ایسے ایسے نمونے مل جائیں گے کہ اپ تصور نہیں کر سکتے اور یہ فتنے انجینیئرز برادرز اور ڈاکٹر تک محدود نہیں رہے بلکہ سسٹرس تک چلے گئے۔خواتین بھی ہیں جن کو حروف تہجی تک یاد نہیں لیکن وہ اب مسند افتاء پر بیٹھ رہی ہیں سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنا لیا نقاب لگا کے خطاب کر رہی ہیں یہ بھی ایک فتنہ ہے جو اج کے دور میں ابھرتا چلا ارہا ہے ایک واقعہ ہے اسی کے تناظر میں ایک سسٹرز تھیں ظہر کی سلات کے بعد ان کا ایک درس چلتا تھا ایک دن درس لمبا ہو گیا یہاں تک کہ عصر کی صلاۃ کا وقت درس کے دوران ہی ہو گیا خواتین نے کہا اپ ہمیں عصر کی صلاۃ کی ادائیگی کرا دیں اب وہ پریشان ہیں یہ عصر کی صلاۃ جہری ہوتی ہے یا سری۔یہ یہ ان لوگوں کی حالت ہے جو مسند درس پر بیٹھ کر دو دو گھنٹے درس دے رہے ہیں اور متعاملین کا فتنہ غیر علماء واعظین کا فتنہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔۔

شہرت طلبی

برادرس کا جو دین ہے وہ دعوت کے نام پر خود نمائی اور نفس فروغی ان کا سیوا بن گیا ہے ان کیلئے ضروری ہے کہ مجمع ہزاروں اور لاکھوں کا ہو مائک اڈیو سسٹم اور اسٹیج شایان شان ہو اور ان کا اپنا تم لوگوں سے پیار سے بات بھی کرتا رہے پرسنل سیکریٹری ہوتا ہے جو ان کے مشترکہ پروگراموں میں بھی ان کی انفرادی حیثیت کو نمایا کرتے ہوئے اعلان نشر کرے گا اور تقریر سے قبل ان کا باقاعدہ لمبا چوڑا تعارف کرائے گا بلکہ بعض بسم اللہ الرحمن الرحیم کا حال تو یہ ہے کہ عوام میں اپنے کچھ لوگوں کو اس لیے بٹھاتے ہیں تاکہ وہ وقتا فوقتا ان کی تقریر پر تالیاں بجائیں اور دوسرے بھی ان کی تقلید میں تالیاں بجائیں اور اسی طرح سستی شہرت اور مختصر وقت میں تاکہ اونچا مقام حاصل ہو جائے جبکہ ائمہ اسلام شہرت سے بھاگتے تھے

خاتمہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج دعوت اور خدمتِ دین کے لیے نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے بلکہ معاشرے کا ہر فرد اگر اس کو اپنا فریضہ سمجھ لے تو یقینا ملک میں امن پھیلے گا خوشحالی آئے گی نفرت و عداوت کی جگہ محبت اور اخوت عام ہوگی لیکن یہاں ایک ضروری بات یہ ہے کہ دعوت کا کام کرنے والے حضرات کو چاہیے کہ وہ قابل علماء کی نگرانی میں کریں ان سے مشورہ لیں ان سے علم و ادب سیکھیں کسی بھی اہم فیصلے سے پہلے علماء سے ضرور رجوع کریں ان سے جتنا سیکھا ہے اتنا ہی سیکھائیں بغیر علم کے دین میں کلام نہ کریں تواضع اور عاجزی اختیار کریں ان کو اپنا حریف نہ بنائیں جتنا قد ہو اتنی ہی بات کریں ملک اور ملت کے عام مسائل کو علماء اور عمائدین کے لیے چھوڑ دیں شہرت کے نشے میں ٹی وی چینلوں کی زینت کے خواب میں امت کی غلط نمائندگی نہ کریں اور نہ ہی دشمن اسلام کو جگ ہنسائی کا موقع دیں

مراجع و مصادر

Spread the love

Leave a Reply