حرف آغاز
دنیا کی تاریخ میں کچھ واقعات اور کچھ مسائل ایسے ہیں جو پھنسے ہوئے ہیں دھاگے سے بھی زیادہ الجھا دیے گئے ہیں تاریخ کے اوراق اکثر پہ جیتا ہوتے ہیں یا ہم ایسا کہیں کچھ متعصبیین اور شرپسند جماعت تاریخ کے اوراق میں تبدیلیاں کرتی آرہی ہیں اور کبھی یہ شر پسند یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ اوراق تک جلا دیتے ہیں جس میں شیعہ اور یہود ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں یہ اللہ کا احسان ہے کہ قرآن و حدیث کی یہ ذمہ داری اس نے خود اٹھا رکھی ہے یہ ایک اہم موضوع ہے بلکہ یہ موضوع صرف موضوع نہیں آج یہ ایک مذہب کی شکل اختیار کر چکا ہے
حضرت یزید رضی اللہ عنہ کا دفاع
انسان کی ایک عجیب فطرت ہے کہ اسے اپ ایک لفظ یا نام دے کر اس کے ساتھ لفظ خیر یا لفظ شر جوڑ دیں پورا سماج تعریف و تنقید میں لگ جاتا ہے اور حضرت یزید رضی اللہ عنہ کا نام تو سر سے منسلک کر دیا گیا ہے اس وجہ سے میں اس چیز کی ابتدا ہی میں ازالہ کرنا چاہوں گا
حضرت یزید یعنی خلیفۃ المسلمین کاتب الوحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے جو اپ کی وصال کے بعد خلیفہ بنے۔ دنیا علم کے بغیر اپ کا دامن پکڑے ہوئے اور ان کی شخصیت کو رات و دن داغدار کرنے میں لگی ہوئی ہے خاص کر اس مہینہ یعنی محرم الحرام میں اب میں حضرت یزید رضی اللہ عنہ کے کچھ فضائل ذکر کرنا چاہوں گا جو آپ کی دفاع کے لیے جاننا ضروری بھی بن جاتا ہے۔
۱ ۔ آپ تابعین میں سے تھے۔
( ۲ )۔ اپ کے والد امیر المومنین امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے جو کاتب وحی بھی تھے۔
( ۳ )۔ بڑے بڑے صحابہ کرام تابعین اور علماء بھی اپ کی مد ح کرتے تھے جیسے محمد بن الحنیفہ ان میں سے ایک نام تھا۔
( ٤ )۔ حدیث قسطنطنیہ میں جس وقت کے بارے میں بصارت دی گئی ہے ان میں سے یہ بھی شامل تھے۔
( ٥) . حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود اپ کو امیر المومنین کے خطاب سے پکارا۔
( ٦ )۔ جس دور میں اپ رہے وہ دور خیر القرون کا تھا۔
آپ کو بدنام کرنے کے لیے بہت سی موضوع حدیث ہیں بھی گھڑی گئیں جن میں سے ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا
“لا يزال امتى قائما باالقسط حتى يكون اول من يتلمه رجل من بني اميه يقال له يزيد”
ترجمہ۔”میری امت کا معاملہ درست رہے گا یہاں تک کہ سب سے پہلا شخص جو بگڑے گا وہ بنی امیہ کا ایک ادمی ہوگا اسے یزید کہا جائے گا”
اس حدیث کی سند میں سعید بن سنان ہیں جو کہ ضعیف راوی ہیں بقول علامہ متقی ھندی اور امام دارقطنی
چند اور سنگین الزامات
(١) آپ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو سازش کے وقت مروایا۔
(٢) آپ شرابی تھے (نعوذ باللہ) برے اعمال میں بڑے لطف اندوز ہو رہے تھے
(٣) اپ نے عبید اللہ کو حضرت حسین کے قتل کا حکم دیا ۔
(٤) اپ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد اپ کے سر کو قدموں تلے روندا۔
(٥) اہل بیت کے ساتھ برا سلوک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد ۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ پہ چند الزامات
(١) آپ نے ایک مستقل اسلامی خلیفہ کے خلاف خروج کیا۔
(٢)۔ آپ نے معصوم صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو یزید رضی اللہ عنہ کے خلاف بھڑکایا۔
(٣)۔ آپ نے اہل کوفہ کا سر میں تعاون کیا نعوذ باللہ جو کہ سب سے بدبخت الزام ہے
حادثہ کربلا کی مراحل میں تقسیم
پہلا مرحلہ: قیام مدینہ
دوسرا مرحلہ: قیام مکہ
تیسرا مرحلہ: روانگی کوفہ (مکہ سے قادسیہ تک کا سفر)
چوتھا مرحلہ: روانگی دمشق(قادسیہ سے کربلا تک کا سفر)
پانچواں مرحلہ: نزول کربلا،وقوع حادثہ
حادثہ کربلا کی حقیقت اور علماء کے اقوال
عتیق الرحمن سنبھلی صاحب فرماتے ہیں۔ کربلا کا واقعہ بہت سادہ اور مختصر ہے جو قصے اور واقع اس کے سلسلے میں بیان کیا جاتا ہے وہ حقیقت کے تقابل ہیں اور من گھڑت داستاں جسے محض ابن سبا یہودی کے شیطانی منصوبے کے مطابق ہی گھڑا جا سکتا ہے ساتھ ہی ساتھ کہتے ہیں یہ قصے خاوند ہ نبوت پر داغ ہے جس کی گنجائش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں نہیں ہے جیسے اپنے دشمنوں کو بددعائیں دینا جو ان کے نانا کی سنت نہ تھی اسی طرح سیدہ زینب کا بین بقا کرتے ہوئے بار بار میلان جنگ میں انا اور لاش سے لپٹ کر رونا چلانا پھر حسین رضی اللہ عنہ کے لیے عمر بن سعید سے رحم کی اپیل کرنا بھلا یہ باتیں خاوندہ نبوت کی خواتین کو زیب دیتی ہیں۔ یہ کہانیاں اور یہ دلیلیں جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ حافظ صلاح الدین صاحب کہتے ہیں رہا حضرت زید کا موقف تو حاشیہ آرائیوں اور فلسفہ طرازیوں کے صرف نظر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے موقف کو لے کر واضح نہ تھے کہ اپ کی اصل تجویز کیا ہے۔ جیسے کہ جب خلیفہ یزین کی بیعت کی دعوت مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ نے دی تو اپ نے صاف کہہ دیا کہ میں اجتماعی طور پر بیت لوں گا پھر اپ وہاں سے مکہ تشریف لے گئے وہاں بھی اپ نے کوئی واضح معاملہ نہ رکھا البتہ وہاں سے کوفہ جانے کی تیاریوں میں لگ گئے اس بات کی خبر سن کر عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین اور بہت سے معروف صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اپ کو روکنے میں لگ گئے پھر عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی وہ اہم کوشش بھی ناکام ہو گئی اور اپ نے کہا میں کوفہ جس مقصد کے لیے جا رہا ہوں وہ صرف مجھے معلوم ہے اور وہ میں بیان بھی نہیں کر سکتا۔ خود شیعہ مورخ ابن طقطقی بھی کہتے ہیں کوفہ کی طرف روانہ ہوئے ہوتے وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مسلم بن عقیل کے قتل کا علم نہ تھا وہ محض اپنے مقصد پر چلے جا رہے تھے جب کوفہ کے پاس ائے تو اون ہے ارم ہوا لوگوں نے وہاں اپ کو روکا بھی اس کے بعد لیکن اپ نے سفر جاری رکھا۔۔
کوفہ روانہ ہونے کے بعد کا مرحلہ
جب اپ کوفہ پہنچے تو اپ کا سامنا حضرت یزید رضی اللہ عنہ کے گورنر عبداللہ بن زیاد سے ہوا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عبداللہ سے حضرت یزید رضی اللہ عنہ کی طرف جانے کی اجازت مانگی جب یہ خبر کوفیوں تک پہنچی تو وہ سمجھ گئے کہ اپ حضرت یزید رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی موت کا پیغام لے جا رہے ہیں اس کے لیے کوفیوں نے اپ کے قافلے پر حملہ کر کے ان خطوط کو جلا کر اپ کو قتل بھی کر دیا ” انا للہ وانا الیہ راجعون” جیسا کہ عتیق الرحمن سنبھلی نے اشارہ کیا تھا کہ یہ معاملہ بہت صاف اور سادہ تھا لیکن کچھ جھوٹے اور مکار مورخین متعصبین شیعہ علماء نے اتنی کثرت سے من گھڑت کہانیاں اور روایت لکھ دی ہیں کہ یہ واقعہ صرف واقعہ نہ رہا بلکہ مذہبی کتاب کی شکل اختیار کر چکا ہے
شادی بیاہ کے موجودہ رسوم و رواج اسلام کی نظر میں