دل کیوں دھڑکتا ہے سائنسی تحقیق

میں نے جو تھوڑی سی سائنس کا مطالعہ کیا ہے، اس میں میرا ایک پسندیدہ موضوع “دل میں دھڑکن کا پیدا ہونا” ہے۔ یہ کوئی رومانوی شاعری کا موضوع نہیں ہے۔ بلکہ میں بات کر رہا ہوں دل کے اندر موجود اس سیلولر اور مالیکولر سسٹم کی جس کے ذریعے ایک پورا نظام چلتا ہے اور اسکے نتیجے میں دل دھڑکتا ہے اور یہ دھڑکن زندگی کی ضمانت ہے۔

تو ہمارا دل پٹھوں سے بنا ہوا ایک عضو ہے۔ دل کے علاؤہ جسم دوسرے پٹھوں پر بھی مشتمل ہے، انھی پٹھوں کی وجہ سے ہمارے جسم میں اندرونی اور بیرونی حرکات ہوتی ہیں۔ ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چل کر جاتے ہیں تو انہی پٹھوں کی وجہ سے، اور ہماری خوراک ہمارے منہ سے معدے اور آنتوں سے ہوتی ہوئی پاخانے کی صورت میں باہر آتی ہے تو وہ بھی انھی پٹھوں کی پیدا کردہ حرکت کی وجہ سے۔

لیکن دل میں ایک خاص بات ہے، وہ ہے اسکی “automaticity”۔ سادہ زبان میں اس سے مراد یہ ہے ہمارے جسم کے باقی پٹھوں کو حرکت کرنے کے لیے دماغ سے آنے والے سگنلز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن دل میں ایک خود کار نظام موجود ہے، جو دل کی دھڑکن یعنی دل کے پٹھوں کی حرکت خود کار طریقے سے پیدا کرتا ہے، اور ان پٹھوں کی حرکت پیدا کرنے ہے کے لیے دماغ کے اس سے سگنل کی ضرورت نہیں۔

دیکھیں، پٹھے بھی جسم کے باقی حصوں کی طرح خلیوں سے بنے ہیں، اور جب یہ خلیے مل کر سکڑیں گے تو پٹھہ سکڑے گا یعنی حرکت کرے گا۔ ان خلیوں کے اندر اور باہر “ائنز” یعنی مثبت اور منفی چارجز کا ایک لیول بنا ہوتا ہے۔

ایک پٹھے کے خلیے کو سکڑنے کے لیے مخصوص چارجز کا خلیوں کے اندر داخل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ان چارجز کو خلیوں کے اندر داخل کرنے کے لیے خلیے پر خاص راستے (چینلز) ہوتے ہیں۔ اس راستے کو کھولنے کے لیے دماغ سے آنے والی نروز سے خاص کیمکل (نیوروٹرانس میٹر) خارج ہوتا ہے، جو پٹھے کے خلیوں کا یہ راستہ کھول دیتا ہے اور چارجز اندر آنے سے خلیہ سکڑ جاتا ہے (کیسے سکڑتا ہے، اس کی تفصیل میں ہم نہیں جائیں گے)۔ سکڑنے کے بعد خلیے میں موجود خاص “پمپ” اندر آنے والے چارجز کو دوبارہ سے باہر نکل دیتے ہیں، اور یوں خلیہ پھر سے سکڑنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اس طرح پھٹے کے خلیے سکڑ کر پٹھے کو حرکت کرواتے ہیں۔

تو مختصر بات یہ ہے کہ جسم کے پٹھوں کو سکڑنے کے لیے دماغ سے نروز کے ذریعے آنے والے سگنلز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب ہم دل کی طرف آتے ہیں، تو دل کے پٹھوں کے بھی سکڑنے اور پھیلنے سے دل خون پمپ کرتا ہے یعنی دل دھڑکتا ہے۔ لیکن دل کے اندر خاص خلیے ہوتے ہیں (cardiac conduction cells)۔ ایسے خلیے جن کے اندر چارجز کے داخلے کے لئے جو راستے (چیلنز) ہوتے ہیں، انہیں کھولنے کے لیے دماغ کے سگنل (نیوروٹرانس میٹر) کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی یہ چیلنز خود کار ہوتے ہیں۔ اور یہی چینلز ہی دل کی خود کار دھڑکن کے بنیادی ذمے دار ہوتے ہیں۔

ان چینلز کو hyperpolarization-activated cyclic nucleotide-gated (HCN) channels کہتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو اس آدمی کا جس نے اتنے لمبے نام کی بجائے انہیں “فنی سوڈیم چیلنز” کا نام دے دیا۔

تو بات یہ ہے کہ دل میں موجود خاص خلیوں (cardiac conduction cells) پر موجود یہ خاص “فنی سوڈیم چیلنز” کے کھلنے سے چارجز ان خلیوں کے اندر آتے ہیں، اور ان چارجز کے اندر آنے سے مزید چارجز بھی خلیے میں داخل ہوتے ہیں۔ دل کے خلیوں کے درمیان خاص راستے ہوتے ہیں (gap junctions) جن کے ذریعے چارجز ایک خلیے سے دوسرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ یوں ایک سلسلہ چلتا ہے جو ان فنی سوڈیم چیلنز کے کھلنے سے شروع ہوتا ہے اور دل کے سب خلیوں میں چارجز پھیل جاتے ہیں۔ اس طرح دل کے سب خلیے سکڑتے ہیں، جن سے پورا دل سکڑ کر خون آگے پمپ کرتا ہے۔ سکڑنے کے بعد خلیوں میں لگے پمپ واپس سے چارجز کو پہلے جیسا کر دیتے ہیں، اور دل واپس سے اپنی اصل حالت میں آجاتا ہے اور اس میں خون بھر جاتا ہے، جو اگلے چکر میں پھر سے پمپ کر دیا جائے گا۔

دل کی دھڑکن اس خود کار نظام کے ذریعے پیدا ہوتی ہے، البتہ دل کی دھڑکن کو منظم رکھنے اور ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کرنے کا اختیار دماغ کے پاس ہوتا ہے، اور دماغ کے نیوروٹرانس میٹر اور ہارمونز دل کی دھڑکن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

مجھے یہ سارا عمل بڑا خوبصورت لگتا ہے۔ یقین کریں جب میں اس عمل کو دہراتا ہوں، کسی کو سمجھاتا/پڑھاتا ہوں تو بے ساختہ کہتا ہوں “its beautiful”!!!

۔ اوپر بیان کیا گیا عمل شاید آپکو ٹھیک سے سمجھ نہ آیا ہو، یا تحریر طویل لگ رہی ہوگی۔ مگر بیان کیا گیا عمل ہر وقت آپکے دل میں ہو رہا ہے، اور اس میں گڑبڑ جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔

ایسے خوبصورت عوامل سے جب سائنس پردہ اٹھاتی ہے تو مجھے سائنس سے اور بھی پیار ہو جاتا ہے۔ ہوسکے تو آپ بھی کوئی ایسا موضوع بتائیں جس نے آپ کو سائنس کی کسی شاخ سے پیار کروا دیا ہو۔۔۔

Spread the love

Leave a Reply