شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ حیات و خدمات

مقالہ نگار ۔۔ محمد اشتیاق بن شمش الحق

متعلم جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی

حرف اغاز۔

کچھ شخصیات عہد ساز اور نابغٔہ روزگار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جو اپنے علم ہنر اور مدبرانہ اور قائدانہ صلاحیتوں سے پوری دنیا کو معطر اور منور کر دیتی ہیں۔عزائم کی بلندیوں ،کچھ کر گزرنے کی دھن اور ان راہوں میں پیش انے والے مصائب و مشکلات پر صبر و تحمل کا مظاہرہ ان کا وطیرہ ہوتا ہے کچھ ایسی ہی شخصیت بے باک وہ نڈر خطیب غیور سلفی عالم ترجمان کتاب و سنت محنتی مدرس و مربی اور تاریخ ہند اہل حدیث میں گہرا علم رکھنے والے علامہ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ کی تھی۔

علامہ رحمانی رحمہ اللہ اپنی حیات میں مختلف عظیم کارنامے انجام دیے ان عظیم کارناموں میں ابو الکلام ازاد اسلامک اویکن سینٹر نئی دہلی کا قیام بھی ہے جسے اپ رحمہ اللہ نے نہ صرف اپنے خون و جگر سے سینچا بلکہ اسے ایک تلاوت اور سایہ دار درخت میں تبدیل کر کے اپنے لیے صدقہ جاریہ کی ایک سبیل پیدا فرما دی انہی کی محنت و لگن سے اج ان کا لگایا ہوا پودا ایک بڑے درخت کی شکل میں اپنے فیوز و برکات کو چہار جانب پھیلا رہا ہے اور اس سینٹر کے اعلی تعلیمی و تربیتی ادارہ جامعہ اسلامیہ سنابل کا شبرہ وطن عزیز سے نکل کر عربی و اسلامی ممالک تک پھیل چکا ہے اور ہم جیسے طالبان علوم نبوت اس سے مستفید ہو کر ان کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

نام و نسب

عبدالحمید رحمانی بن عبدالجبار بن عبداللہ بن جمرئی بن بھان

کنیت۔۔ ابو عبد السلام

نسبت۔۔ رحمانی۔۔۔ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش اور نیپال وغیرہ کے دستور کے مطابق اپ نے اپنی نسبت اپنی علمی جامعہ رحمانی بنارس کی طرف کی جہاں سے اپ نے 1963 میں سند فضیلت حاصل کی۔

مقام پیدائش۔۔۔موضع ۔تندوا۔پوسٹ بجرابھاری ضلع سدھارتھ نگر سابق ضلع بستی یو پی انڈیا

تاریخ پیدائش۔۔۔کاغذات میں یا 23 اپریل 1943 عیسوی اور حقیقت میں 1940 ء

تعلیمی سفر۔۔۔ایسے تو اپ رحمہ اللہ نے بہت سے مدارس سے تعلیم حاصل کی ان میں سے چند کا نام ذکر کیا جا رہا ہے ١۔مدرسہ شمس العلوم سمرا ، دو سال_٢ جامعہ سراج العلوم کنڈو بونڈھیار ،ایک سال_٣ جامعہ اسلامیہ فیض عام عیسوی ۔٤ جامعہ رحمانیہ بنارس دو سال۔٥ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ-چار سال_

اساتذہ اور شیوخ۔

اپ رحمہ اللہ نے اپنے دور طالب علموں میں جن ماہرین فن استاد اور شیوخ کے سامنے زانوے تلمزہ کیا وہ اپنے دور کے افتاب و ماہ نام تھے ان میں سے چند مشہور اساتذہ کے نام درزیل ہیں۔

١. مولانا محمد زماں رحمانی۔

٢. مولانا عبدالمبین منظر

٣. مولانا محمد اقبال رحمانی. ٤ مولانا مفتی حبیب الرحمن مولانا عبدالرحمن بن شیخ الاسلام عبید اللہ رحمانی مبارک پوری..٥ مولانا نذیر احمد رحمانی ۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے اساتذہ کرام۔

١. شیخ حماد انصاری.. شیخ عبدالحسن العباد.. شیخ ممدوح فخری.. شیخ عبدالغفار حسن رحمانی.. شیخ رمضان مصری.. یہ وہ اساتذہ ہیں جن سے مولانا نے علم و فن باقاعدہ طور پر تعلیم حاصل کی ہے ان کے علاوہ درزیل علماء اور ائمہ سے بھی استفادہ کیا ہے.

امام عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز۔۔علامہ عبداللہ بن حمید۔۔مشہور محدث و امام محمد ناصر الدین البانی۔۔اور عبرانی سریانی انگریزی بربری اور عربی زبانوں میں پر یکساں عبور رکھنے والے ماہر لسانیات ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی وغیرہ۔۔

تلامذہ۔

اپ رحمہ اللہ کے بہت سارے تلامذہ ہیں ان میں سے چند کا نام ذکر کرتا ہوں۔۔

مولانا عبدالسلام مدنی۔۔ڈاکٹر وسیع اللہ عباس۔۔ڈاکٹر محمد مفضل مدنی۔۔شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی۔۔۔مولانا وسیم احمد سنابلی ریاضی۔۔مولانا وسیم احمد سنابلی مدنی۔۔

علمی خدمات۔

مولانا رحمہ اللہ نے مختلف جہاد اور مختلف میدانوں میں اپنا عملی قدم رکھا اور اللہ کی توفیق سے جس میدان کو اپنا عمل گاہ بنایا اس میں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوئے خواہ وہ تدریس کا میدان رہا ,ہو یا صحافت کا سیاست کا رہا ہو یا جماعت ملی خدمات کا, نو نہالان ملت اسلامیہ کی صحیح منہج اور طریقہ پر ٹھوس تعلیم و تربیت کے لیے مدارس و جامعات کے قیام کا ہو ,یا تحقیقی و تصنیفی اور منہجی کتب کی نشر و اشاعت کا.

تدریس۔

جنوری 1963 عیسوی مطابق شعبان 1382 ہجری میں جامعہ رحمانیہ بنارس سے فراغت کے بعد اپنی مادر علمی سے اپنا تدریس سے سفر شروع کیا اور 1386 ہجری مطابق 1966 عیسوی میں جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ جانے سے پہلے تک چار سال عربی اسلامی اور فلسفہ کی تدریس کے تشنگان علوم دینیہ کو سیراب کرتے رہے پھر 1970 مطابق 1390 ہجری میں جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے چشمہ صافی سے سیراب ہو کر واپس ہندوستان تشریح لائے اس کے بعد جامعہ سلفیہ بنارس میں دو سال تک اونچے درجات کے طلبہ کو عربی زبان اور اسلامی علوم کی اہم کتابوں کا درس دیا اور طلبہ کے دلوں میں اپنا مقام بنا لیا۔

صحافت اور تصنیف و تالیف کے میدان میں۔

اپ رحمہ اللہ نے صحافت کے میدان میں بھی کام کیے جیسے۔١ ایڈیٹر 15 روزہ ترجمان اردو دہلی ارگن مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندی مدت تقریبا چار سال 1971 عیسوی تا جولائی 1975 ء۔

٢۔ معاون ایڈیٹر سہماہی مجلہ صوت الجامعہ

ان کے علاوہ اور بھی ہیں جن کو یہاں ذکر نہیں کر رہا ہوں۔

 

صوبائی جمیعت اہل حدیث دہلی کی صدارت۔

مولانا رحمانی رحمانی رحمہ اللہ رحمانی رحمہ اللہ ایک عرصہ تک صوبائی جمعیت اہل حدیث دہلی کے صدر رہے لیکن جب مولانا نے دیکھا کہ جس فارغ البانی کی ضرورت ہے مرکز کے کاموں اور مسلسل سفر اور صحت کے خرابی وغیرہ کی وجہ سے وہ نہیں ہو پاتی ہے اور ان امور کی وجہ سے صوبائی جمیعت کا کام متاثر ہوتا ہے دو فروری 1994 عیسوی کو جمعیت کی صدارت سے استعفی دے دیا کچھ عرصہ تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی مجلس شوری کے ممبر بھی رہے مگر فروری 1994 عیسوی میں اپ نے مجلس شوری کے ممبری سے بھی استیفہ دے دیے ۔

میدان سیاست میں۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث سے استعفی دینے کے بعد مولانا رحمہ اللہ جنوبی ہند کے ایک تعلیمی ادارہ سے وابستہ ہو گئے اور اس کے ذمہ داران کے ساتھ سعودی عرب کویت بحرین متحدہ عرب اور امارات وغیرہ کا سفر کر کے صرف ادارہ کو نہیں بلکہ ذمہ داران کو بھی متعارف کرایا لیکن سفر سے واپسی کے بعد مولانا کو اس ادارہ سے وابستگی پر اپنی غلطی کا احساس ہوا اس لیے فورا اس سے الگ ہو گئے اس کے بعد ملک حالات ایسے ہوئے جس میں مسلمان بہت سے مظالم کا شکار ہوئے اور مختلف حیثیتوں سے انہیں تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جانے لگی خود حکومت وقت کی طرف سے کوشش کی گئی جی ہاں نے مولانا کو میدان سیاست میں کودنے پر مجبور کیا مگر اپ کے میدان سیاست میں اترنے کا مقصد مال و دولت کا اقتدار اور کرسی نہیں تھا بلکہ اپ کا بنیادی مقصد مسلمان ہند اور کمزور طبقوں کو استحصال سے بچانا تھا اور دستور ہند کی روشنی میں انہیں ان کے جائز حقوق دلانا تھا۔

بیماری اور وفات۔

بیماریاں۔مولانا رحمہ اللہ ایک لمبے عرصہ تک مختلف اوارض اور بیماریوں کے گھیرے میں تھے جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں اپنے دور طالب علمی ہی سے ڈائبٹیز جیسے خطرناک مرض میں مبتلا تھے ابو الکلام ازاد اسلامی سینٹر نئی گہری اور اس سے پہلے تعلیمی و تربیتی ادارہ مہجد تعلیم الاسلامی کے قیام کے سال تعلیمی سال کے مکمل ہونے اور سالانہ تاکید ہونے کے بعد رمضان 1401 ہجری میں اپ کو پیشاب میں رکاوٹ کی تکلیف میں پیچھا کیا اور رمضان 1433 ہجری مطابق جولائی 2012 عیسوی سے گردوں نے بھی کام کرنا بند کر دیا لیکن بعد میں فضل الہی سے گردوں نے حرکت کرنا شروع کر دیا تھا ان تمام بیماریوں سے بزد ازما ہوتے ہوئے حسب سابق ادارے کے کام دیکھتے اور اپنی کریمتی مشوروں سے نوازی کر خدام مرکز اور اساتذہ کرام کو کام کرنے پر ابھارتے رہے بالاخر وقت موعود ا پہنچا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر 20 اگست 2013 عیسوی کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔

تاریخ وفات۔

20 اگست 2013 عیسوی مطابق 12 شوال 1434 ہجری بروز منگل وقت چار بج کر 30 منٹ صبح کے وقت۔

مقام وفات

اب الکلام ازاد اسلامک اوے گنی سینٹر نئی دہلی کے زیر نگرانی چلنے والے خدیجہ نیشنل اسپتال سر سید احمد خان روڈ دریا گنج نئی دہلی۔

صلاۃ جنازہ۔

اپ کی صلات جنازہ دو جگہ ادا کی گئی ۔

١. مرکز کی تعمیر کردہ چار منزلہ عالی شان جامع مسجد ابوبکر صدیق مین روب جگہ بھائی نہیں دہلی بوقت باد سراپ عصر چار بج کر 30 منٹ پر۔

٢. مرکزی کی حالیہ تعمیر کردہ عظیم الشان جامع مسجد عمر بن خطاب ثنابل نئی دہلی بوقت پانچ بج کر 30 منٹ شام کے وقت دونوں جگہوں پر اپ کی صلاۃ جنازہ کی امامت اپ کے صاحبزادہ گرامی مولانا محمد رحمانی سنابلی مدنی نے کی۔

 

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Spread the love

1 thought on “شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ حیات و خدمات”

Leave a Reply