مولانا ابوالکلام آزاد بحیثیت خطیب

مقالہ نگار۔ شکیل احمد محمد عثمان ۔متعلم جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی

حرف اغاز

اج میں بیسویں صدی کے ایک ایسے باکمال خطیب کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جن کی خطابت کا اندازہ صرف وہ خوش قسمت لوگ لگا سکتے ہیں جنہوں نے اس جادو بیان مقرر کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ ابوالکلام ازاد ہیں

ذرا ابو الکلام ازاد کے خطبے تو پڑھیے اس میں بجلی کی کڑک، رعد کی گرج، دریا کی روانی، استدلال کی پختگی، زبان کی لطافت، الفاظ کی شوکت اور انداز بیان کی پاکیزگی دل اور دماغ عقل و جذبات دونوں کی صفوں کو یکساں مسخر کرتی جا رہی ہیں اور ناہید کا نغمہ کچھ اس طرح حسین تناسب کے ساتھ کھلا ملا ہوا ملے گا کہ انسان محسوس کرے گا کہ میں وادی کشمیر کی سیر کر رہا ہوں

ایک خطیب کے لیے کن چیزوں کا جاننا ضروری ہے اور ان کا اولین مقصد کیا ہونا چاہیے

پہلا( اولین مقصد)

ایک خطیب کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ سامعین کو اپنا ہم خیال بنائے یا انہیں کسی رائے یا تجویز پر متفق کرے یہ کام اسان نہیں ہے اس میں کامیابی کے لیے کئی چیزوں کی ضرورت ہے موضوع ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ اس کی اہمیت کے قائل ہوں اور کسی نہ کسی درجے میں اسے اپنی زندگی یا مقاصد کے لیے ضرور خیال کریں

دوسرا( کن چیزوں کا جاننا ضروری ہے)

ایک خطیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود موضوع کے تمام پہلو پر حاوی ہو اس کے موافق اراء تپش کر سکیں اور دلائل کو رد کر سکیں اس کے اپنے خیالات میں کسی قسم کی پراگندگی یا تذبذب نہیں ہونا چاہیے بے شک باز اوقات طول کلامی ناگزیر ہو جاتی ہے لیکن اگر اس سے اجتناب کر سکے اور اپنی معافی ضمیر کو بچے تلے الفاظ میں لگی لپیٹی رکھے بغیر، مدلل طریقے سے سامعین کے سامنے رکھ سکے تو اس کا اثر کہیں زیادہ ہوگا بنسبت اس کے کہ وہ غیر واضح طور پر اکتا دینے کی حد تک بولتا چلا جائے

اگر اسے اپنے موضوع کی صداقت پر یقین ہے اگر اس کے لیے موضوع الفاظ کے انتخاب میں اور برجستہ اور موثر طریقے سے پیش کرنے میں مہارت حاصل ہے اگر وہ اپنی تقریر کو اس حد تک اصلیت کا رنگ دے سکتے ہیں کہ سامع اسے سن کر ایسے محسوس کرنے لگے گویا وہ خود اس کے دل کی بات کہہ رہا ہے تو اس کی تقریر کی کامیابی میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی

مولانا ابل کلام ازاد کو قدرت کی طرف سے وہ تمام صفات اور صلاحیتیں وافر مقدار میں ملی تھی جو کامیاب خطیب بننے کے لیے درکار ہیں

مولانا ازاد کو بچپن سے کیا بننے کا شوق تھا اور وہ کس طرح کے کھیل کھیلتے تھے

ہمارے پاس مولانا کی شہادت موجود ہے کہ وہ بچپن ہی سے تقریر کرنے اور مقرر بننے کے خواب دیکھنے لگے تھے ان کی بڑی بہن فاطمہ بیگم فرماتی ہیں بچپن بھائی کو ان فعلوں کا شوق نہیں تھا جو اکثر بچے کھیلا کرتے ہیں ان کے کھیل سات اٹھ سال کی عمر میں عجیب انداز کے ہوا کرتے تھے مثلا کبھی وہ گھر کے تمام صندوقوں اور بکسوں کو ایک لائن میں رکھ کر رکھ کر کہتے تھے کہ یہ ریل گاڑی ہے پھر والد کی پگڑی سر پر باندھ کر بیٹھ جاتے تھے اور ہم بہنوں سے کہتے تھے کہ تم لوگ چلا چلا کر کہو ہٹو ہٹو راستہ دو دلی کے مولانا آرہے ہیں

ہم لوگ اس پر کہتے تھے کہ بھائی یہاں تو کوئی آدمی نہیں ہے ہم کس کو دھکا دیں اور کہیں کہ راستہ دو اس پر وہ کہتے تھے کہ یہ تو کھیل ہے تم سمجھو کہ بہت لوگ مجھ کو لینے اسٹیشن پر آتے ہیں

پھر بھائی صندوق پر سے اترتے تھے اور بہت اہستہ اہستہ قدم اٹھا کر چلتے تھے جیسے کہ بڑی عمر کے لوگ چلتے ہیں کبھی وہ گھر میں کسی اونچی چیز پر کھڑے ہو جاتے تھے اور سب بہنوں کو اس پاس کھڑا کر کے کہتے تھے کہ تم لوگ تالیاں بجاؤ اور سمجھو کہ ہزاروں ادمی میرے چاروں طرف کھڑے ہیں اور میں تقریر کر رہا ہوں اور لوگ میری تقریر سن کر تالیاں بجا رہے ہیں میں کہتی تھی کہ بھائی سوائے حمد و چار کے یہاں اور کوئی نہیں ہے ہم کسے سمجھیں کہ ہزاروں ادمی یہاں کھڑے ہیں اس پر وہ کہتے تھے کہ یہ تو کھیل ہے اور کھیل میں ایسا ہی ہوتا ہے

لاہور کے سالانہ اجلاس میں مولانا ازاد کی تقریر

مولانا ازاد اپنے ماحول سے متاثر ہو کر تحریر و تقریر پر توجہ کرنے لگے تھے وہ 10 برس کی عمر سے نظم و نصر لکھنے لگے

چنانچہ جب ان کی عمر 15 – 16 برس کی ہوئی کی 1903 عیسوی میں انہوں نے مشہور ماہنامہ” لسان الصدق “جاری کیا۔

اس وقت انجمن حمایت اسلام کے نام پر لاہور میں سالانہ اجلاس رکھتے تھے اور ملک کے مختلف حصوں سے اہل علم محفل کو تقریر کرنے کی دعوت دیا کرتی تھی لسان صدق کی تحریروں کے بلند معار اور خطبانہ انداز کو دیکھ کر انجمن کے اصحاب مجاز نے رسالے کے ایڈیٹر ابو الکلام ازاد کو اپنی اجلاس اپریل 1904 عیسوی کو خطاب کرنے کی دعوت دی ممکن ہے داعی حضرات کو انہیں دیکھ کر ان کی کم عمری سے کچھ مایوسی ہوئی ہو لیکن ان کی تقریر سے یقینا وہ مایوس نہیں ہوئے کیونکہ اس سے اگلے دن ان سے پھر تقریر کرنے کی درخواست کی گئی تھی

مولانا ابو الکلام ازاد نے جو دل ہی کی جاؤں مسجد پر تاریخی تقریر پیش کی تھی اس کا خلاصہ

مولانا ابو الکلام ازاد نے دلی کی جامع مسجد پر جو تاریخی تقریر کی اور ہندوستان کی تقسیم سے پیدا ہونے والے حالات پر جس دور اندیشی کے ساتھ تبصرہ کیا وہ سننے پر اج بھی اتنا ہی رقت انگیز معلوم ہوتا ہے ایسا اس لیے کیونکہ انہوں نے جو بھی پیشین گوئی کی تھی وہ سچ ثابت ہوتی نظر ارہی ہے ائے یہ سنتے ہیں ان کی تقریر کا متن جو کسی بھی شخص کو اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے

میرے عزیزو!

اپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو مجھے یہاں لے ائی ہے میرے لیے سا جہاں کی اس یادگار مسجد نے یہ اجتماع کوئی نئی بات نہیں ہے میں نے اس زمانے میں جس پر لیل و نہار کی بہت سی گردشیں بیت چکی ہیں تمہیں یہیں سے خطاب کیا تھا جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کے بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دلوں میں سب کے بجائے اعتماد۔

اج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند برسوں کی بھولی برسی کہانیاں یاد ا جاتی ہیں تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا تم نے میری زبان کاٹ لی میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیے میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے میں نے کروٹ لینی چاہیے تم نے میری کمر توڑ دی حتی کہ پچھلے سات برس کی تلخ نما سیات جو تمہیں اج داغ جدائی دی گئی ہے اس کے عہد و ثواب میں بھی میں نے تمہیں خطرے کی شاہرا پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعتراض کیا بلکہ غفلت اور انکار کی ساری سنتیں تازہ کر دی نتیجہ معلوم ہوا کی اج انہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا جن کا اندیشہ تمہیں صراط مستقیم سے دور لے گیا تھا

عزیزو! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیل پیدا کرو یہ دیکھو مسجد کی بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور اج تم ہو کی تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے

حرف آخر

مولانا ازاد کہا کرتے تھے کہ میرے پاس تمہارے لیے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے وہی پرانا نسخہ ہے جو برسوں پہلے کا ہے وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا وہ نسخہ ہے قران کا وہی اعلان کہ

قال الله تعالى: ولا تنه‍وا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان كنتم مؤمنين

اج کی صحبت ختم ہو گئی مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ اختصار کے ساتھ کہہ چکا ہوں پھر کہتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں اپنے حواس پر قابو رکھو اپنے گردو پیش اپنی زندگی خود فراہم کرو یہ منڈی کی چیزیں نہیں کہ تمہیں خرید کر لا دوں یہ تو دل کی دکان ہی میں سے اعمال صالحہ کی نقدی سے دستیاب ہو سکتی ہے

اب اخر میں مولائے کریم سے دعا ہے کہ ہم مولانا ازاد کی زندگی سے جو کچھ نصیحت حاصل کرنے اور ان کے جیسا خطیبانہ انداز پیدا کرنے کی توفیق دے

امین یا رب العالمین

مراجع ومصادر۔۔۔ کتاب ۔ خطبات آزاد سے یہ مقالہ لکھا گیا ہے۔

Spread the love

Leave a Reply